سوال:
ہماری شادی ارینج میرج ہے، لیکن بیوی اور شوہر مختلف ممالک میں رہتے ہیں، ویزے کے انتظار میں بیوی کو ایک سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے کہ اس نے شوہر کو دیکھا بھی نہیں۔ شوہر پہلے اپنے کزن کے گھر میں ایک ایسی لڑکی کے ساتھ رہ چکا ہے جو اس کے کزن کی کزن ہے اور ایک وقت میں ان کے درمیان باہمی جذبات بھی تھے، بیوی کو اس بات کا علم نکاح کے بعد ہوا، وہ لڑکی آج بھی شوہر کے لیے جذبات رکھتی ہے اور اس کے گھر آنے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
شوہر نے ابتدا میں اس لڑکی کو سوشل میڈیا سے ہٹانے میں بھی ہچکچاہٹ دکھائی اور مجموعی طور پر نہ بیوی کو ترجیح دی، نہ اس سے ملنے کی کوشش کی۔ سسرال والے رخصتی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں جبکہ شوہر کو یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ وہ بیوی سے ملنے نہ جائے۔ بیوی خود کو جذباتی طور پر دور، نظر انداز شدہ اور فتنہ کے خدشے میں محسوس کرتی ہے اور رہنمائی چاہتی ہے کہ:
کیا وہ شرعاً خلع یا طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے؟ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کیسے کرے؟ رخصتی اور شوہر و سسرال سے رابطے کے متعلق کیا حکمت عملی اختیار کرے؟
تنقیح:
محترمہ! آپ کے سوال میں کچھ ابہام ہے، آپ درج ذیل باتوں کی وضاحت فرمائیں:
1) آپ کی رخصتی کیوں نہیں ہورہی ہے، رخصتی میں رکاوٹ کس طرف سے ہے، لڑکے والوں کی طرف سے یا آپ کی طرف سے ہے؟
2) اگر لڑکے والوں کی طرف سے رکاوٹ ہے تو اس کی نوعیت تفصیل سے ذکر کریں۔
3) نیز یہ بھی بتائیں کہ آپ کس بنیاد پر خلع چاہتی ہیں؟
4) ویزہ شوہر نہیں بھیج رہا ہے یا گورنمنٹ کی طرف سے رکاوٹ ہے؟ ان باتوں کی وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
جواب تنقیح:
1) رخصتی ہماری طرف سے رکی ہوئی ہے کیونکہ میاں بیوی ساتھ نہیں رہ سکتے، دلہا سال میں صرف ایک یا دو ہفتے کے لیے ہی آ سکتا ہے۔
2) رکاوٹ دلہن والوں کی طرف سے ہے۔
3) خلع کی بنیاد یہ ہے کہ وہ نہ آتا ہے اور شادی سے پہلے کچھ باتیں چھپائی یا جھوٹ بولے گئے تھے۔
4) رکاوٹ حکومت کی طرف سے ہے۔ دلہا اس دوران مشرقِ وسطیٰ میں کام کر سکتا ہے، لیکن اس کا خاندان اس کے ساتھ رہتا ہے اور وہ لوگ امریکہ میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت اس آپ کے یک طرفہ بیان کو بیناد بنا کر کوئی بھی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے، بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے بزرگوں( جنہوں نے آپ کی ارینج میرج کرائی ہے) کے سامنے یہ معاملہ مثبت انداز میں پیش کریں اور اپنے خدشات کا کھل کر اظہار کریں، اس طرح ان کے ذریعہ معاملہ کی حقیقت واضح ہو جائے گی، اور فیصلہ کرنا آسان ہوگا، بساں اوقات انسان کو بدگمانی ہو جاتی ہے یا انسان کو غیر مصدقہ خبر پہنچتی ہے، ایسی صورت میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے معاملہ کی تحقیق کرنا اور دوسرے فریق کو صفائی اور توبہ کا موقع دینا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم:(سُورۃ الحجرات، رقم الآیۃ: 12)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ O
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث:2178، ط: دارالرسالة العالمیة)
عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ۔
بدائع الصنائع: (18/4، ط: دارالکتب العلمیۃ)
فتسليم المرأة نفسها إلى الزوج وقت وجوب التسليم ونعني بالتسليم : التخلية، وهي أن تخلي بين نفسها وبين زوجها برفع المانع من وطئها أو الاستمتاع بها حقيقةً إذا كان المانع من قبلها، أو من قبل غير الزوج، فإن لم يوجد التسليم على هذا التفسير وقت وجوب التسليم؛ فلا نفقة لها.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی