سوال:
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!
میری ارینج شادی (Arranged Marriage) کو تقریباً 20 دن ہوئے ہیں، شادی سے پہلے میری فیملی نے لڑکی کے گھر والوں سے واضح طور پر پوچھا تھا کہ کیا لڑکی کو کوئی بیماری وغیرہ ہے؟ تو اُن کی طرف سے جواب ملا کہ کوئی بیماری نہیں ہے، لیکن نکاح کے فوراً بعد جب لڑکی سسرال آئی تو اُس نے خود بتانا شروع کیا کہ وہ اکثر بیمار رہتی ہے، جب تفصیل پوچھی گئی تو اُس نے کہا کہ عام بخار، سر درد وغیرہ ہو جاتا ہے۔
لیکن ایک رات لڑکی کو شدید قسم کا fits (دماغی دورہ) پڑا، اس کے بعد اُس نے بتایا کہ وہ ایک مخصوص گولی روزانہ لیتی ہے جو اگر نہ لے تو اس کی طبیعت بگڑ جاتی ہے۔ اُس نے جس دوا کا ذکر کیا، وہ ذہنی مریضوں کے لیے نیند یا سکون کی دوا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ اگر لڑکی کے گھر والوں نے بیماری چھپا کر غلط معلومات فراہم کی ہوں اور اب میں اس بنیاد پر لڑکی کو چھوڑنے (یعنی طلاق دینے) کا فیصلہ کروں تو کیا ایسے حالات میں میرا طلاق دینا شرعاً غلط تو نہیں ہوگا؟
میرے گھر والے بھی اس معاملے میں بہت پریشان اور کنفیوژ ہیں، براہِ کرم اسلامی نقطۂ نظر سے مکمل رہنمائی فرمائیں کہ مجھے اس صورتحال کو کس طرح صحیح طریقے سے حل کرنا چاہیے؟ جزاکم اللہ خیراً
جواب: واضح رہے کہ طلاق دینا شرعاً ایک ناپسندیدہ عمل ہے، اس لیے جب تک کوئی معقول عذر نہ ہو، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، تاہم عذر کی صورت میں طلاق دینا جائز ہے۔
لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں شوہر کو چاہیے کہ اگر اس عورت کے ساتھ نبھاؤ ممکن ہو اور آپس میں حدودِ شرع کے موافق زندگی بسر ہو سکتی ہو تو طلاق دینے سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ بیماری اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہے جس پر حتی الامکان صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے، اگر آپ بیوی کی بیماری پر صبر کریں گے اور اس پر خرچ کریں گے تو اس کا اجر آپ کو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں عطا فرمائیں گے اور چونکہ بیماری کسی فرد کو بھی لگ سکتی ہے، اس لیے اس بارے میں اللہ کا خوف رکھنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے اس صبر و تحمّل پر اچھی امید رکھنی چاہیے۔
لیکن اگر شوہر سمجھتا ہے کہ چونکہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے اور آئندہ آپس میں حدودِ شرع کے مطابق زندگی بسر کرنا مشکل ہے تو ایسی صورت میں طلاق دینے کی بھی گنجائش ہے۔
طلاق کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ عورت کو پاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دی جائے اور اس کے بعد رجوع نہ کیا جائے، یہاں تک کہ اس کی عدّت گزر جائے اور شوہر کے نکاح سے نکل جائے، ایک ساتھ تین طلاقیں دینا ناجائز عمل اور گناہ کا باعث ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (228/3، ط: دار الفكر )
وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعا يبقى على أصله من الحظر، ولهذا قال تعالى {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: ٣٤] أي لا تطلبوا الفراق.
الهداية: (221/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
قال: " الطلاق على ثلاثة أوجه حسن وأحسن وبدعي فالأحسن أن يطلق الرجل امرأته تطليقة واحدة في طهر لم يجامعها فيه ويتركها حتى تنقضي عدتها " لأن الصحابة رضي الله عنهم كانوا يستحبون أن لا يزيدوا في الطلاق على واحدة حتى تنقضي العدة فإن هذا أفضل عندهم من أن يطلقها الرجل ثلاثا عند كل طهر واحدة ولأنه أبعد من الندامة وأقل ضررا بالمرأة ولا خلاف لأحد في الكراهة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی