resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: شوہر بیوی کو ذہنی اذیت دے تو بیوی کو کیا کرنا چاہیے؟

(33549-No)

سوال: میرا سوال گھریلو اور شرعی مسائل سے متعلق ہے، گزارش ہے کہ رہنمائی فرمائیں۔
میری شادی شدہ زندگی میں شدید ذہنی اذیت کا سامنا ہے۔ میرے شوہر کئی عرصے سے مجھ سے بات نہیں کرتے، مجھے نظر انداز کرتے ہیں اور بار بار ذہنی تکلیف دیتے ہیں۔ ان کے گھر والے بھی میرا بائیکاٹ کیے ہوئے ہیں۔ میں اپنے کمرے میں اکیلی رہتی ہوں اور بات چیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس کے علاوہ، میرے شوہر دو سے تین مرتبہ مجھے گھر سے نکال چکے ہیں اور بعض اوقات میرے 5 سال کے بچوں کو بھی مجھ سے الگ کر کے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ میں جوائنٹ فیملی میں رہتی ہوں۔ حالات بگڑنے کے بعد میرا کھانا پینا بھی الگ کر دیا گیا ہے۔ شوہر اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور مجھے اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے میں نے اپنی ذہنی حالت، مستقبل اور خودمختاری کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ:
1️⃣ کیا اسلام میں مجھے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے جبکہ میرا شوہر نہ میرا خیال رکھتا ہے، نہ بات کرتا ہے؟
2️⃣ کیا ایسی صورت میں تعلیم جاری رکھنا شوہر کی نافرمانی (نشیوز) میں شمار ہوتا ہے؟
3️⃣ کیا اسلام میں شوہر کا بیوی کو ذہنی اذیت دینا، بات نہ کرنا یا گھر والوں کا بائیکاٹ کرنا جائز ہے؟
4️⃣ اگر شوہر مسلسل ظلم اور ذہنی تکلیف دیتا رہے تو بیوی شرعاً کیا کر سکتی ہے؟ کون سے حقوق اسے حاصل ہیں؟
میری درخواست ہے کہ شریعت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں تاکہ میں گناہ یا غلط فہمی میں نہ پڑوں اور صحیح راستے کا انتخاب کر سکوں۔

جواب: شادی ہوجانے کے بعد میاں بیوی پر ایک دوسرے کے بہت حقوق ہیں، جن کو پورا کرنا لازم ہے، سوال میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعہ کے مطابق درست ہے تو یہ شوہر کی طرف سے سخت زیادتی اور ظلم ہے، جس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوگا، اس معاملے میں سب سے بہتر حل یہ ہے کہ گھر کے بڑے اس معاملے میں فریقین کی بات سن کر اس صورتِ حال کا کوئی مناسب حل نکالیں، اگر اس کا کوئی حل نہیں نکلتا تو شریعت نے اپنی شرائط کے ساتھ جدائی اختیار کرنے کا راستہ بھی بتلایا ہے، قرآن شریف میں ہے: ﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ( النساء: ٣٥)﴾
ترجمہ: "اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو (ان کے درمیان فیصلہ کرانے کے لیے) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو ۔ اگر وہ دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرما دے گا۔ بیشک اللہ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے"۔
اسی طرح ایک اور آیت مبارکہ میں ہے:فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ... (البقرة: ٢٢٩)﴾
ترجمہ: اس کے بعد (شوہر کے لیے دو ہی راستے ہیں) یا تو قاعدے کے مطابق بیوی کو روک رکھے، یا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے۔"
جہاں تک عصری تعلیم کا تعلق ہے تو سوال میں ذکر کردہ صورت میں آپ ضروری عصری تعلیم شرعی حدود و قیود کو مدِّنظر رکھتے ہوئے حاصل کرسکتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الكريم: (النساء، الآية: ٣٥)
﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ●﴾

القرآن الكريم: (البقرة، الآية: ٢٢٩)
﴿ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ... ●﴾

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah