resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: شوہر کا بیوی پر ظلم و ستم کرنا اور مال دار گھرانے سے ہونے کے باوجود اسے علیحدہ مکان نہ دینا

(33550-No)

سوال: میں اپنے سسرال سے الگ رہائش کے حق کے بارے میں شرعی رہنمائی (فتویٰ) کی درخواست کر رہی ہوں۔
میں گزشتہ ایک سال سے اپنے شوہر سے علیحدہ ہوں اور 13 نومبر 2024 کو متعدد واقعات اور سسرال کی مسلسل مداخلت کے باعث پاکستان واپس آ گئی۔ اگر ضرورت ہو تو میں ان واقعات کی تفصیل فون پر بیان کر سکتی ہوں۔ میرے شوہر کے پانچ بہن بھائی ہیں اور وہ سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔
سسرال کے گھر میں مجھے چھت پر ایک کمرہ دیا گیا تھا جس کے ساتھ باتھ روم تھا اور سیڑھیوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا حصہ باورچی خانے کے طور پر استعمال ہو رہا تھا، اس جگہ میں نہ مناسب ہوا کی آمدورفت تھی، نہ پنکھا، نہ مناسب روشنی (صرف ایک بلب تھا)، وہ بھی قطر کی شدید گرمی میں۔ وہاں چھپکلیاں، کیڑے مکوڑے، ٹوٹا ہوا فرنیچر، نہ کوئی تالا تھا اور نہ ہی الگ داخلی راستہ۔ یہ ماحول میرے اور میرے چھوٹے بیٹے کے لیے غیر محفوظ تھا اور میرے خاندانی عرف (urf) کے مطابق معیارِ زندگی سے بہت کم تر تھا، جبکہ شادی سے پہلے میں ایک آرام دہ گھر میں رہتی تھی جہاں تمام ضروریات ہمارے خاندانی عرف کے مطابق پوری ہوتی تھیں، ہمیں مناسب سہولیات، پرائیویسی اور گھریلو مدد حاصل تھی، میں نے کبھی غیر محفوظ یا غیر صحت بخش حالات میں زندگی نہیں گزاری۔
میرے شوہر کو اپنی کمپنی کی جانب سے علیحدہ ہاؤسنگ الاؤنس ملتا ہے، جو خاص طور پر بیوی اور بچے کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے دیا جاتا ہے، یہ رقم ان کی بنیادی تنخواہ کے برابر ہے اور اس سے بغیر کسی مالی بوجھ کے الگ گھر کرائے پر لیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود وہ اس وقت مجھے اور میرے بیٹے کے خرچ کے لیے اپنی آمدنی کا صرف تقریباً ٪15 بھیجتے ہیں، اور انہوں نے مجھے یہ کہا ہے کہ یا تو میں اسی چھت والے کمرے میں رہوں یا پھر اپنے والدین یا بھائیوں کے گھر میں رہتی رہوں، جس سے میں مناسب سہولت اور محفوظ رہائش سے محروم ہو جاتی ہوں۔
پانچ سالہ شادی شدہ زندگی میں میں نے صرف ڈیڑھ سال اپنے شوہر کے ساتھ گزارا ہے، باقی وقت میں اپنے والدین کے گھر رہی ہوں، میں نے صرف اس کمرے کی وجہ سے الگ رہائش کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ مسلسل مداخلت، بدسلوکی اور جذباتی، ذہنی اور جسمانی تشدد کی وجہ سے یہ مطالبہ کیا۔
ایک آخری سنگین واقعہ یہ پیش آیا کہ میرے شوہر نے مجھے میرے کمرے سے دھکا دے کر اور گھسیٹ کر نیچے اپنے والد (سسر) کے پاس لے گئے، اس دوران میرے کپڑے درست حالت میں نہ رہے اور میں اہلِ خانہ کے سامنے بے پردہ ہو گئی، حالانکہ میں بار بار ان سے رکنے کی التجا کرتی رہی، مجھے شدید ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور مدد مانگنے کے باوجود نہ میرے شوہر نے اور نہ ہی میری ساس نے میری مدد کی یا مجھے ڈھانپا، اس واقعے کے بعد مجھے اپنی جان و عزت کے تحفظ کا شدید خوف لاحق ہوا اور میں فوراً 13 نومبر 2024 کو پاکستان واپس آ گئی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے واقعات ہیں جن کی تفصیل میں ضرورت پڑنے پر نجی طور پر بیان کر سکتی ہوں۔
اس ضمن میں میں درج ذیل امور کے بارے میں شرعی رہنمائی چاہتی ہوں:
کیا شرعاً میرے شوہر پر لازم ہے کہ وہ مجھے اور میرے بیٹے کو ایک الگ محفوظ اور خودمختار رہائش فراہم کرے جو میرے حقوق اور میرے خاندانی عرف کے مطابق ہو؟
کیا شوہر کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اس حق سے انکار کرے، جبکہ اسے خاص طور پر بیوی اور بچے کے لیے ہاؤسنگ الاؤنس مل رہا ہو؟
شوہر کادوسروں کے سامنے اپنی بیوی کو جذباتی، ذہنی یا خصوصاً جسمانی طور پر نقصان پہنچانا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟
اگر شوہر بنیادی حقوق دینے سے مسلسل انکار کرے اور ظلم جاری رکھے تو مجھے شرعاً کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟

جواب: اگر میاں بیوی مال دار ہوں اور ان کی مالی حالت اچھی ہو تو عورت کے مطالبے پر بیوی کو رہائش کے لیے ایسا الگ گھر دینا لازم ہے جس میں شوہر کے دیگر رشتہ داروں کا عمل دخل نہ ہو۔ یہ بات یاد رہے کہ رہائشی گھر شوہر کی ذاتی ملکیت کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ کرایہ کا گھر دینا بھی کافی ہوگا۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر واقعتاً عورت مال دار گھرانے سے تعلّق رکھتی ہو اور شوہر کو بھی حکومت کی جانب سے الاؤنس (Allowance) ملتا ہو، جس سے وہ بآسانی اپنی بیوی بچوں کو ذاتی یا کرایہ کا علیحدہ مکان مہیّا کرسکتا ہو تو اس پر اپنی بیوی کو علیحدہ مکان دینا شرعاً لازم ہے اور اس بارے میں کمی کوتاہی کرنا، نیز بیوی پر ظلم و ستم کرنا ناجائز اور ممنوع کام ہے۔
مزید یہ کہ اگر شوہر بیوی کے شرعی حقوق میں کوتاہی برتتا ہو اور ظلم و ستم سے باز نہ آتا ہو اور میاں بیوی کا حدود اللہ پر قائم رہنا دشوار ہو تو بیوی شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (602/3، ط: دار الفکر)
(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله) ... (وأهلها) ... (بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر.
(قوله وأهلها) أي له منعهم من السكنى معها في بيته سواء كان ملكا له أو إجارة أو عارية.
(قوله بقدر حالهما) أي في اليسار والإعسار، فليس مسكن الأغنياء كمسكن الفقراء كما في البحر؛ لكن إذا كان أحدهما غنيا والآخر فقيرا؛ فقد مر أنه يجب لها في الطعام والكسوة الوسط، ويخاطب بقدر وسعه.
(قوله ومفاده لزوم كنيف ومطبخ) أي بيت الخلاء وموضع الطبخ بأن يكونا داخل البيت أو في الدار لا يشاركها فيهما أحد من أهل الدار. قلت: وينبغي أن يكون هذا في غير الفقراء الذين يسكنون في الربوع والأحواش بحيث يكون لكل واحد بيت يخصه وبعض المرافق مشتركة كالخلاء والتنور وبئر الماء ويأتي تمامه قريبا.
وعلى ما نقلنا عن ملتقط أبي القاسم وتجنيسه للأسروشني أن ذلك يختلف باختلاف الناس، ففي الشريفة ذات اليسار لا بد من إفرادها في دار، ومتوسط الحال يكفيها بيت واحد من دار. ومفهومه أن من كانت من ذوات الإعسار يكفيها بيت ولو مع أحمائها وضرتها كأكثر الأعراب وأهل القرى وفقراء المدن الذين يسكنون في الأحواش والربوع، وهذا التفصيل هو الموافق، لما مر من أن المسكن يعتبر بقدر حالهما، ولقوله تعالى - {أسكنوهن من حيث سكنتم من وجدكم} [الطلاق: ٦]- وينبغي اعتماده في زماننا هذا فقد مر أن الطعام والكسوة يختلفان باختلاف الزمان والمكان.... إذ لا شك أن المعروف يختلف باختلاف الزمان والمكان، فعلى المفتي أن ينظر إلى حال أهل زمانه وبلده، إذ بدون ذلك لا تحصل المعاشرة بالمعروف، وقد قال تعالى - {ولا تضاروهن لتضيقوا عليهن} [الطلاق: ٦].

الهندية: (556/1، ط: دار الفكر)
امرأة أبت أن تسكن مع ضرتها، أو مع أحمائها كأمه وغيرها، فإن كان في الدار بيوت فرغ لها بيتا، وجعل لبيتها غلقا على حدة ليس لها أن تطلب من الزوج بيتا آخر، فإن لم يكن فيها إلا بيت واحد فلها ذلك... كذا في الظهيرية، وبه أفتى برهان الأئمة كذا في الوجيز للكردري.

کذا فی احسن الفتاوی: (476/5، ط: ایچ ایم سعید)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah