سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میاں بیوی کے جھگڑے میں میاں کی طرف سے یہ کہہ دینا کہ "تم میری طرف سے فارغ ہو" اور میاں یہ الفاظ ادا کرنے میں احتیاط ملحوظ خاطر رکھے ہوئے ہو کہ طلاق نہیں دینی، محض ڈرانے کے لیے یہ الفاظ استعمال کرنے ہیں، اس سمجھ بوجھ اور نیت کے ساتھ کہ ان الفاظ کا مطلب ہرگز طلاق نہیں ہے۔ نیز یہ کہ میاں کو یہ علم نہیں کہ ان الفاظ کے استعمال سے ایک مرتبہ طلاق واقع ہو جائے گی۔ اگر میاں کو یہ علم ہوتا تو وہ یقیناً یہ الفاظ استعمال نہ کرتا بلکہ ڈرانے کے لیے کوئی اور لفظ بول دیتا جس کا ہرگز مطلب طلاق نہ ہوتا، کیونکہ بہرصورت میاں کو یہ قطعی طور پر واضح ہے کہ اس نے طلاق نہیں دینی بلکہ صرف ڈرانا مقصد ہے تو ان الفاظ کی ادائیگی کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے؟
مہربانی فرما کر اوپر بیان کردہ صورتحال بالخصوص میاں کی طلاق دینے کی نیت قطعاً نہ ہونا اور اپنی دانست میں محفوظ الفاظ کا انتخاب کرنے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے رہنمائی فرما دیجئے کہ کیا کہیں ایک طلاق تو واقع نہیں ہو گئی ہے؟ اور اگر ہو چکی تو کیا تجدیدِ نکاح کی ضرورت ہوگی اگر دوران عدت رجوع بھی ہو چکا ہو؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر مذکورہ شخص نے لڑائی جھگڑے کے موقع پر اپنی بیوی کو "تم میری طرف سے فارغ ہو" کے الفاظ کہے ہیں تو طلاق کی نیّت کے بغیر بھی یہ الفاظ کہنے سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے، کیونکہ یہ ان الفاظ میں سے ہیں جن کے ذریعے لڑائی جھگڑے کے موقع پر طلاق کی نیّت کے بغیر محض ڈرانے کے طور پر کہنے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
واضح رہے کہ طلاقِ بائن کے بعد تجدیدِ نکاح کے لیے باقاعدہ نیا نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں تجدیدِ نکاح کے لیے عدت کے اندر رجوع کرنا کافی نہیں ہوگا، بلکہ میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے عدت کے اندر یا بعد از عدت گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ باقاعدہ نکاح کرنا ضروری ہوگا، دوبارہ نکاح کی صورت میں شوہر کے پاس آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا، اس لیے طلاق کے معاملہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (300/3، ط: دار الفکر)
"ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له
(قوله توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب. بيان ذلك أن حالة الغضب تصلح للرد والتبعيد والسب والشتم كما تصلح للطلاق، وألفاظ الأولين يحتملان ذلك أيضا فصار الحال في نفسه محتملا للطلاق وغيره، فإذا عنى به غيره فقد نوى ما يحتمله كلامه ولا يكذبه الظاهر فيصدق في القضاء، بخلاف ألفاظ الأخير: أي ما يتعين للجواب لأنها وإن احتملت الطلاق وغيره أيضا لكنها لما زال عنها احتمال الرد والتبعيد والسب والشتم اللذين احتملتهما حال الغضب تعينت الحال على إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق في كلامه ظاهرا، فلا يصدق في الصرف عن الظاهر، فلذا وقع بها قضاء بلا توقف على النية كما في صريح الطلاق إذا نوى به الطلاق عن وثاق"
الھدایة: (257/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
"وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها " لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله".
کذا فی تبویب فتاویٰ دارالعلوم کراتشی، رقم الفتویٰ: 2120/90
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی