resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع لینے سے طلاق واقع ہونے کا حکم

(33559-No)

سوال: ایک لڑکی کی شادی ہوئی، لیکن وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے جذباتی طور پر تیار نہیں تھی۔ ہماری اسے سمجھانے اور اسے بار بار اس کے شوہر کے گھر واپس بھیجنے کی کوششوں کے باوجود وہ شادی جاری رکھنے پر راضی نہ ہوئی۔ ہم نے شوہر سے طلاق پر بات چیت کرنے کی کوشش کی، لیکن اس نے ہماری درخواستوں کو نظر انداز کر دیا اور بالآخر جواب دینا بند کر دیا اور دبئی چلا گیا، جس کے بعد سے وہ دو سال سے زیادہ عرصے سے ہمارے ساتھ کوئی رابطہ یا مالی تعاون نہیں کر رہا ہے۔
ہم نے اپنے مقامی امام سے مشورہ کیا، جنہوں نے عدالت سے طلاق لینے کا مشورہ دیا جس میں انہوں نے یہ لکھنے کو کہا کہ لڑکی کو نان نفقہ نہیں ملتا، ہم نے خلع کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا ہے مگر اس میں یہ نان نفقہ والی شق نہیں ہے، اب امام مسجد فتویٰ لینے کا مشورہ دے رہے ہیں تاکہ لڑکی کی دوسرے کسی سے شادی کرائی جا سکے۔ براہ کرم اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
تنقیح:
محترم! عدالت سے جاری شدہ خلع کی ڈگری کے مکمل کاغذات ارسال کردیں، ان کو دیکھنے کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
یہ منسلک صفحات ہیں جن میں خلع کے حوالے سے وکیل نے لکھا ہے۔ ہم نے اُن کو کہا تھا کہ نان نفقہ نہیں ملتا، یہ ضرور لکھنا ہے، پر اُنہوں نے لکھا نہیں اور یہ مارنے والی بات وکیل نے خود ہی لکھی ہے، جبکہ مارنے والا کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے تو براہِ کرم اِس معاملے میں رہنمائی فرما دیجیے کہ کیا یہ طلاق ہو گئی ہے؟ تاکہ ہم آگے لڑکی کا نکاح کریں۔
تنقیحِ دوم:
محترم اس بات کی وضاحت کردیں کہ کیا آپ نے لوگوں عدالت سے خلع کے لیے تب رجوع کیا تھا، جب مذکورہ لڑکی والدین کے گھر واپس آنے کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے رضامند ہوگئی تھی، لیکن شوہر یا اس کے خاندان کے ساتھ اس حوالے سے بات کرنے کے باوجود شوہر نان نفقہ اور دیگر حقوق کی ادائیگی نہیں کرتا رہا، یا لڑکی کا والدین کے گھر واپس آنے کے بالکل اس کے ساتھ رہنے کے لیے رضامند نہیں تھی، اور اسی دوران آپ لوگوں نے نان نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر عدالت سے خلع لینے کے لیے رجوع کیا تھا؟
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیحِ دوم:
جب لڑکی اپنے والد کے گھر آگئی تھی کہ میں اس شخص کے ساتھ نہیں رہ سکتی تو ہم نے کوشش کی کہ یہ چلی جائے اور گھر بس جائے، پر ہمارے بار بار لڑکے والوں سے رابطے پر انہوں نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور پھر ہم لوگ (گھر کے بڑے) کچھ مرتبہ ان کے گئے بھی اور لڑکے کو علم ہونے کے باوجود کہ ہم اسی موضوع پر گفتگو کرنے آ رہے ہیں تو وہ گھر پہ نہیں ملتا اور ان کے بڑوں کی طرف سے یہ ہی تھا کہ اب ایسے آگے چلنا ممکن نہیں اور پھر جب کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تھا تو ہم نے کورٹ سے رجوع کیا اور وکیل سے کہا کہ نان نفقہ والی بات ہے، مگر کاغذ میں وکیل نے یہ بات نہیں لکھی اور ہمیں بھی علم نہیں تھا کی کیا لکھا اور کیا نہیں کیوں کہ ہمارا کورٹ کچہری سے اتنا واسطہ رہا نہیں ہے۔

جواب: آپ کے سوال کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہے کہ اس میں جب تک فریقین کو مکمل طور پر نہ سنا جائے، اس وقت تک یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ دونوں فریقین کسی قریبی مستند دارالافتاء جاکر پورے مسئلہ کی نوعیت وہاں کے مفتیان کرام کے سامنے بیان کردیں، اس کے بعد ان کی طرف سے جو بھی فتویٰ جاری ہوجائے، اس کے مطابق عمل کرلیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:

رد المحتار: (441/3، ط: دار الفکر)
وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".

الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (7015/9، ط: دار الفکر)
وقد اعتبر الحنفية ركن الخلع هو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce