resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: دو بیٹوں، تین بیٹیوں اور بھانجے بھانجیوں میں میراث کی تقسیم

(33563-No)

سوال: ہمارا ایک مکان ہے جو والدہ کے نام پر رجسٹرڈ ہے، لیکن اس مکان کی تعمیر میں سارا پیسہ والد صاحب نے لگایا تھا، اب والد اور والدہ دونوں کا انتقال ہو چکا ہے۔ ہم دو بھائی اور تین بہنیں ہیں، والدہ کی ایک بہن (ہماری خالہ) تھیں جن کا انتقال والدہ سے پہلے ہو چکا تھا، خالہ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، ان تین بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم بہن بھائیوں کے علاوہ خالہ کے بچوں کو بھی ہماری والدہ کی وراثت میں حصہ ملے گا؟ براہِ کرم تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔

جواب: پوچھی گئی صورت میں اس مکان میں آپ کی خالہ یا ان کے بچوں کا کوئی حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ مکان آپ بہن بھائیوں میں آپ کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔
مرحوم والدین کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد سات (7) حصوں میں تقسیم کی جائے گی، جس میں سے دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو دو (2) اور تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
فیصد کے اعتبار سے دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو ٪28.57 فیصد حصہ اور تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو ٪14.28 فیصد حصہ ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ ... الخ

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster