سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میں نے پوچھنا تھا کہ اب میری شادی کو 21 سال ہوگئے ہیں لیکن شادی کے دوسرے سال کسی جھگڑے کے دوران شوہر نے مجھے بولا کہ آئندہ اگر تم نے بیٹی پر ہاتھ اٹھایا تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا، پھر دوبارہ یہی دہرایا کہ اللہ کی قسم میں تمہیں طلاق دے دوں گا، تھوڑی دیر کے بعد میں نے شوہر سے کہا کہ آپ نے ایسا کیوں بولا؟ تو اس بات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی چاہیے طلاق، ابھی لینی ہے طلاق؟ پھر انہوں نے کہا کہ لو طلاق، میں خاموش ہو گئی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ بات کافی پرانی ہو چکی ہے اور اس بات کو 19 سال کا عرصہ گزر چکا ہے، یہ بات ہم سے نظر انداز ہوگئی، اور اب شوہر کہتے ہیں کہ انہیں تو یہ بات یاد ہی نہیں، میں ان سے ایک دو بار پوچھ چکی ہوں لیکن وہ یہی کہتے ہیں کہ انہیں بات یاد نہیں، ہم ساتھ ہی رہتے رہے ہیں لیکن بات کافی پرانی ہو نے کی وجہ سے اب مسئلہ ہورہا ہے، دین سے جڑی ہوں تو اب پریشان ہوں کہ کیا کریں؟ جتنی بات مجھے یاد تھی بتا دی ہے اور شوہر کہتے ہیں کہ ان کو یہ بات یاد نہیں۔ شریعت اور دلائل کی روشنی میں میری مدد کریں اور راہنمائی فرمائیں کہ اب کیا ہم میاں بیوی کی طرح رہتے رہیں؟ میں کافی پریشان ہوں، بچے جوان ہو چکے ہیں، میری رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ اس جملے "طلاق لے لو" میں دونوں باتوں یعنی بیوی پر طلاق واقع کرنے اور اسے طلاق کا اختیار دینے میں سے ہر بات کا احتمال موجود ہے، لہذا اس جملے سے طلاق واقع ہونے میں شوہر کا قول حلفاً معتبر ہوگا۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر واقعتاً شوہر کی نیت طلاق کی نہیں تھی اور نہ ہی اسے اس بارے میں کچھ یاد پڑتا ہے اور اس بات پر قسم بھی کھاتا ہے تو اس سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیۃ: (382/1، ط: مکتبہ رشیدیہ)
امراۃ طلبت الطلاق من زوجھا فقال لھا: "سہ طلاق بردار ورفتی" لا یقع، ویکون ھذا تفویض الطلاق الیھا، وان نوی یقع.
کذا فی فتاوی عثمانی: (354/2)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی