سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! مفتی صاحب والد صاحب مرحوم کے ترکے کی تقسیم کے بارے میں شرعی رہنمائی درکار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد صاحب کا انتقال 2005ء میں ہوا، کچھ مسائل کی وجہ سے ان کی میراث تقسیم نہیں کی گئی، ان کے انتقال کے وقت ان کے ورثاء میں بیوی (شاہین بی بی)، بیٹا (بنیامین)، بیٹی (اقراء)، والد (احمد بخش)، والدہ (پٹھانوں بی بی)، ایک ماں شریک بھائی (غلام یاسین)، چار سگے بھائی (غلام صدیق، محمد عمر، غلام حیدر، محمد ابراہیم) اور دو بہنیں (سکینہ، حاجرہ ) حیات تھیں۔
اس کے بعد 2011ء میں میری والدہ (شاہین بی بی) کا انتقال ہوا،ان کے ورثاء میں شوہر (محمد عمر جن سے میری والدہ نے دوسرا نکاح کیا تھا)، بیٹی (اقراء)، بیٹا (بنیامین) اور ماں (مبارک بی بی) حیات تھے۔
اس کے بعد 2015ء میں میری دادی ( پٹھانوں بی بی ) کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں شوہر (احمد بخش)، پانچ بیٹے (غلام یاسین، غلام صدیق، محمد عمر، غلام حیدر، محمد ابراہیم) اور دو بیٹیاں (سکینہ، حاجرہ) حیات تھیں، دادی کے انتقال کے وقت ان کے والدین، دادا، دادی اور نانا نانی میں سے کوئی حیات نہیں تھا۔
اس کے بعد 2018ء میں میرے دادا (احمد بخش) کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں چار بیٹے (غلام صدیق، محمد عمر، غلام حیدر، محمد ابراہیم) اور دو بیٹیاں (سکینہ، حاجرہ ) حیات تھیں اور میری دادی کے پہلے شوہر کے بیٹے ( غلام یاسین ) وہ بھی حیات تھے ، اور دادا کے انتقال کے وقت ان کے والدین، دادا، دادی اور نانا نانی میں سے کوئی حیات نہیں تھا۔
جواب: مرحومین کی تجہیز وتکفین کے جائز اورمتوسط اخراجات،قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیدادمنقولہ اور غیرمنقولہ کو آٹھ سو چونسٹھ (864) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بنیامین کو تین سو چوّن (354)، اقراء کو ایک سو ستتّر (177)، عمر کو ستائیس (27)، مبارک بی بی کو اٹھارہ (18)، غلام یاسین کو اٹھارہ (18)، غلام صدیق کو چون (54)، محمد عمر کو چون (54)، غلام حیدر کو چون (54)، محمد ابراہیم کو چون (54)، سکینہ کو ستائیس (27) اور ہاجرہ کو ستائیس (27) حصے ملیں گے۔
فیصد کے اعتبار سے بنیامین کو ٪40.97 فیصد حصہ، اقراء کو 20.48 فیصد حصہ، عمر کو 3.125 فیصد حصہ، مبارک بی بی کو 2.083 فیصد حصہ، غلام یاسین کو 2.083 فیصد حصہ، غلام صدیق کو 6.25 فیصد حصہ، محمد عمر کو 6.25 فیصد حصہ، غلام حیدر کو 6.25 فیصد حصہ،محمد ابراہیم کو 6.25 فیصد حصہ، سکینہ کو 3.125 فیصد حصہ اور ہاجرہ کو 3.125 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11، 12)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ..... وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌۚ
فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 176)
وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ... الخ
الھندیة: (450/6، ط: دار الفکر)
ويسقط الإخوة والأخوات بالابن وابن الابن وإن سفل وبالأب بالاتفاق.
الھندیة: (451/6، ط: دار الفکر)
(الباب الثالث في العصبات) وهم كل من ليس له سهم مقدر ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض وإذا انفرد أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار.
فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا، ثم الأخ لأب وأم ، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم، ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط.
الدر المختار: (کتاب الفرائض، 81/6، ط: دار الفکر)
فصل في المناسخة (مات بعض الورثة قبل القسمة للتركة صححت المسألة الأولى) وأعطيت سهام كل وارث (ثم الثانية) ... الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی