resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ورثاء کا مرحوم والدین کی جائیداد مصالحت کے طور پر آپس میں کمی بیشی کے ساتھ تقسیم کرنا

(33596-No)

سوال: السلام علیکم! وراثت سے متعلق سوال ہے، دونوں والدین کا انتقال ہو چکا ہے، وارثین میں صرف اولادیں ہیں، جتنی اولادیں ہیں، ترکے میں اتنی ہی عدد جائدادیں ہیں جن کی قیمتوں میں فرق ہے۔ وارثین اس بات پہ آمادہ ہیں کہ باہمی رضامندی سے سب کو ایک ایک جائیداد دے دی جائے اور کسی کو اس بات پہ اعتراض نہیں کہ دوسرے کے پاس زیادہ قیمت اور میرے حصے میں کم قیمت والی چیز آئی ہے۔ سب متفقہ طور پر بغیر کسی دباؤ کے راضی ہیں اور قیمت کی کمی بیشی میں سب نے ایک دوسرے کو اپنے حق سے بری کر دیا ہے۔ کیا شرعی اعتبار سے وراثت کی تقسیم کا یہ طریقہ قابل قبول ہے؟

جواب: واضح رہے کہ مرحوم والدین کے انتقال کے بعد ان کا تمام مالِ وراثت ان کے شرعی ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگا، کوئی انسان ان مقررہ حصوں میں اپنی مرضی سے کمی پیش نہیں کرسکتا، البتہ اگر تمام بالغ ورثاء پورے ہوش و حواس کے ساتھ کسی دباؤ یا زبردستی کے بغیر باہمی رضا مندی سے اپنے شرعی حصے سے کم یا زیادہ لے لیں یا آپس میں تبدیلی (adjustment) کرلیں تو یہ تخارج کہلاتا ہے اور ایسا کرنا جائز ہے، بشرطیکہ کوئی نابالغ نہ ہو۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں مرحوم والدین کی متروکہ جائیدادیں بالغ ورثاء دلی رضامندی سے مصالحت کے طور پر تقسیم کرنا چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الشامیة: (‌‌كتاب الصلح، فصل في التخارج، 644/5، ط: دار الفکر)
"(ولو أخرجوا واحدا) من الورثة (فحصته تقسم بين الباقي على السواء إن كان ما أعطوه من مالهم غير الميراث، وإن كان) المعطى (مما ورثوه فعلى قدر ميراثهم) يقسم بينهم."

الھندیة: (كتاب الصلح، الباب الخامس عشر في صلح الورثة والوصي في الميراث والوصية، 268/4، ط: دار الفكر بيروت)
"إذا كانت التركة بين ورثة فأخرجوا أحدهما منها بمال أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض صح قليلا كان ما أعطوه أو كثيرا وإن كانت التركة ذهبا فأعطوه فضة أو كانت فضة فأعطوه ذهبا فهو كذلك لأنه بيع الجنس بخلاف الجنس فلا يشترط التساوي ويعتبر التقابض في المجلس."

شریفیہ شرح سراجیہ میں ہے: ( باب التصحیح، فصل في التخارج ص:73، ط:قدیمی)
"فصل في التخارج و هو تفاعل من الخروج و المراد به ههنا أن يتصالح الورثة على اخراج بعضهم عن الميراث بشيئ معلوم من التركة ، و هو جائز عند التراضي."

الدر المختار: (642/5، ط: دارالفکر)
فصل في التخارج (أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطاه له (أو) أخرجوه (عن) تركة هي (ذهب بفضة) دفعوها له (أو) على العكس أو عن نقدين بهما (صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف نسبه (قل) ما أعطوه (أو كثر) لكن بشرط التقابض فيما هو صرف (وفي) إخراجه عن (نقدين) وغيرها بأحد النقدين لا يصح (إلا أن يكون ما أعطى له أكثر من حصته من ذلك الجنس) تحرزا عن الربا، ولا بد من حضور النقدين عند الصلح وعلمه بقدر نصيبه.شرنبلالية وجلالية.ولو بعرض جاز مطلقا لعدم الربا، كذا لو أنكروا إرثه لانه حينئذ..... (وبطل الصلح إن أخرج أحد الورثة وفي التركة ديون بشرط أن تكون الديون لبقيتهم) لان تمليك الدين من غير من عليه الدين باطل.ثم ذكر لصحته حيلا فقال (وصح لو شرطوا إبراء الغرماء منه) أي من حصته لانه تمليك الدين ممن عليه فيسقط قدر نصيبه عن الغرماء (أو قضوا نصيب المصالح منه) أي الذين (تبرعا) منهم (وأحالهم بحصته أو أقرضوه قدر حصته منه مصالحوه عن غيرهم) بما يصلح بدلا (وأحالهم بالقرض على الغرماء) وقبلوا الحوالة، وهذه أحسن الحيل.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: (7 / 19)
"وقسمة رضا: وهي التي يفعلها الشركاء بالتراضي."

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster