عنوان: 1: ملاوٹ والا مصالحہ بیچنے، اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حکم 2: جس شخص کے پاس حرام مال ہو، اس سے قرض لینے کا حکم(3368-No)

سوال: السلام علیکم،
ایک شخص مصالحہ کا کاروبار کرتا ہے، خالص مصالحہ چونکہ بہت مہنگا پڑتا ہے، غریب عوام کی قوت خرید سے باہر ہے، جس کی وجہ سے مصالحہ فروخت مصالحہ میں چوکر،چاول اور رنگ وغیرہ کی ملاوٹ کرتے ہیں اور مصالحہ کی مختلف کوالٹیاں بناتے ہیں، ادنٰی، متوسط، اور اعلیٰ لیکن ملاوٹ سب میں ہوتی ہے، اب اس شخص کا یہ ملاوٹ کرنا اور ملاوٹ شدہ مصالحہ آگے فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟
اس سے حاصل شدہ نفع حلال ہے یا حرام؟
کسی شخص کے پاس مال حرام ہو اس سے ادھار لینا کیسا ہے؟
مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ شکریہ۔
تنقیح:
السلام علیکم!
محترم ! آپ نے جو سوال پوچھا ہے اس کے بارے میں کچھ وضاحت مطلوب ہے، وہ یہ کہ آپ کے علاقے میں مارکیٹ میں مصالحہ کی مختلف کوالٹیاں بنانے کا رواج کیا ہے، یعنی مصالحہ کی مختلف کوالٹیاں بنانے کے لئے جو مختلف چیزیں مصالحہ میں ڈالی جاتی ہے، کیا اس کو خریدنے والے اور فروخت کرنے والے بازاری رواج کے مطابق معمولی سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں، یا اس کو دھوکہ سمجھتے ہیں؟
دوسرا یہ کہ کیا مصالحہ کے اپنے اجزاء کے علاوہ دوسرے غیر متعلقہ اجزاء کو ملائے بغیر مصالحہ کی مختلف کوالٹیاں بنانا ممکن نہیں ہے؟
جواب تنقیح:
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته،
چونکہ مصالحہ میں ملاوٹ کی جاتی ہے اور لوگوں کو بھی اس کا علم ہوتا ہے، لیکن ان کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس میں کس چیز کی ملاوٹ ہوئی ہے، اوراگر بتایا جائے تو لازمی بات ہے وہ محسوس تو کریں گے،اسی طرح یہ مصالحہ اندرون ملک اور بیرون ملک ایران وغیرہ بھی بھجوایا جاتا ہے، اور حال ہی میں لاھور سے مصالحہ واپس بھجوایا گیا ہے، وجہ یہی بنی کہ اس میں ملاوٹ زیادہ تھی، تو ریجیکٹ ہوگیا۔
اسی طرح اگر مصالحہ کے اپنے اجزاء سے ہی کوالٹیاں بنائی جائے تو بھی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے، جس کو لوگ نہیں خرید سکتے، خالص مصالحہ سات سو روپے سے زیادہ پر ایک کلو ملتا ہے، لہذا ملاوٹ تو کرنی ہی پڑتی ہے، البتہ جن چاول وغیرہ کی ملاوٹ کی جاتی ہے، وہ انتہائی گھٹیا کوالٹی کے ہوتے ہیں، جسے عام طور پر لوگ نہیں خریدتے۔
مفتی صاحب ! اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، آپ ہماری رہنمائی فرمائیں، اور یہ بھی بتائیں کہ اس کی آمدنی ہمارے لئے حلال ہے یا حرام؟

جواب: 1: صورتِ مسئولہ میں جو قابلِ خوراک اجزا ء آپ مصالحہ میں ملاتے ہیں، اس کے بارے میں اگر آپ اپنے خریداروں کو بتاتے ہیں، اور مصالحہ کی پیکنگ پر اجزائے ترکیبیہ میں ان اجزاء کا ذکر کرتے ہیں، اور اس مصالحہ کو خالص مصالحہ کے نام سے نہیں بیچتے، تو اس صورت میں آپ کے لیے مصالحہ بیچنا اور اس سے کمائی حاصل کرنا جائز ہے، ورنہ جائز نہیں ہے۔
2: صورتِ مسئولہ میں جس شخص سے آپ قرض لینا چاہتے ہیں، اس شخص کے پاس اگر حلال اور حرام مال الگ الگ موجود ہے، اور اس کے بارے میں آپ کو معلوم بھی ہے، تو وہ شخص اگر آپ کو قرض حلال سے دے رہا ہے، تو آپ کے لیے اس سے قرض لینا جائز ہے، اور اگر وہ قرض حرام سے دے رہا ہو، تو آپ کے لیے اس سے قرضہ لینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر آپ کو معلوم نہ ہو کہ وہ شخص مجھے حلال سے قرض دے رہا ہے یا حرام سے، تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر اس شخص کے پاس حلال مال غالب ہے، تو اس سے قرض لینا جائز ہوگا، لیکن اگر اس کے پاس حرام مال غالب ہے، تو اس سے آپ کے لیے قرض لینا جائز نہیں ہوگا۔
اور اگر اس شخص کے پاس حلال اور حرام مال الگ الگ موجود نہ ہو، بلکہ اس نے حلال اور حرام دونوں کو ملالیا ہے، یا اس کے بارے میں آپ کو کوئی معلومات نہیں ہیں، تو اس صورت میں اس شخص کی جتنی کمائی حلال ہے، آپ کے لیے اس قدر پیسوں کا قرض اس سے لینے کی گنجائش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذي: (كتاب الصوم، رقم الحدیث: 1315، 598/3، ط: شركة مكتبة و مطبعة مصطفى البابي)
حدثنا علي بن حجر قال: أخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة من طعام، فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: «يا صاحب الطعام، ما هذا؟»، قال: أصابته السماء يا رسول الله، قال: «أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس»، ثم قال: «من غش فليس منا»وفي الباب عن ابن عمر، وأبي الحمراء، وابن عباس، وبريدة، وأبي بردة بن نيار، وحذيفة بن اليمان: حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم كرهوا الغش، وقالوا: الغش حرام۔

الدر المختار مع رد المحتار: (باب خيار العيب، 47/5، ط: دار الفكر)
لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام (قوله؛ لأن الغش حرام) ذكر في البحر أو الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته، قال الصدر لا نأخذ به. اه. قال في النهر: أي لا نأخذ بكونه يفسق بمجرد هذا؛ لأنه صغيرة. اه قلت: وفيه نظر؛ لأن الغش من أكل أموال الناس بالباطل فكيف يكون صغيرة۔

فقہ البیوع: (احكام المال الحرام، 997/1، ط: مکتبۃ معارف القرآن)
أمّا إذا خلطه بمال نفسه، فالمرادُ أنّه لايحلّ له الانتفاعُ بالحصّة المغصوبة، أمّا الانتفاعُ بحصّةِ ماله، فيجوز، سواءٌ كان قليلاً أو كثيراً. وقد اشتهر على الألسُن أنّ حكم التّعامل مع من كان مالُه مخلوطاً بالحلال والحرام أنّه إن كان الحلالُ فيها أكثر، جاز التّعاملُ معه بقبول هديّته وتعاقد البيع والشّراء معه، وبذلك صدرت بعضُ الفتاوى. ولكنّ ما يتحقّق بعد سبر كلام الفقهاء الحنفيّة فى هذا الموضوع أنّ اعتبارَالغلبة إنّما هو فى الصّورة الأولى، يعنى فيما إذا كان الحلالُ متميّزاً عن الحرام عند صاحبه، ولايعلمُ المتعاملُ معه أنّ ما يُعطيه من الحلال أو من الحرام. فحينئذٍ تُعتبر الغلبة، بمعنى أنّه إن كان أكثرُ ماله حلالاً، يُفرض أنّ ما يُعطيه من الحلال، والعكس بالعكس، كما قدّمنا نُصوصه فى الصّورة الأولى.
أمّا إذا كان الحلالُ مخلوطاً بالحرام دون تمييز أحدهما بالآخر، فإنّه لاعبرةَ بالغلبة فى هذه الحالة فى مذهب الحنفيّة. ويدلّ على ذلك ما يأتى:…………… وقد ذكرنا قولَ الفقهاء الحنفيّة فى القسم الثانى (المخلوط المتميّز) أنّه إن كان الغالبُ فى الأموال المتميّزة حلالاً، جاز للموهوب له أن ينتفعَ بما وُهِب له مالم يعلم أنّ ما أهدىَ إليه حرامٌ بعينه، وعلّله الفقهاء بقولهم: "إنّ أموالَ النّاس لاتخلو عن قليل حرام،" (1) مع أنّ احتمالَ كونه من الحرام قائمٌ فى المال الّذى أكثرُه حلال، فالانتفاعُ بقدر الحلال من المال المخلوط أولى بالجواز، لأنّ احتمالَ كونه حراماً منتفٍ ههنا………………..وقد رُوى عن الإمام محمّد رحمه الله تعالى حِلُّ الانتفاع بقدر الحلال بصراحة. جاء فى التّتار خانيّةعنه: "غصب عشرةَ دنانير، فألقى فيها ديناراً، ثمّ أعطى منه رجلاً ديناراً، جاز، ثمّ ديناراً آخر، لا." (2) والحلالُ ههنا أقلّ، ولكنّه أجيز بقدرالحلالِ بدون اعتبار الغلبة.
5_وخامساً: قال الكاسانيّ رحمه الله تعالى: "ولو خلط الغاصبُ دراهمَ الغصب بدراهم نفسه خلطاً لايتميّز ضمنَ مثلَها، ومَلك المخلوط، لأنّه أتلفها بالخلط. وإن مات كان ذلك لجميع الغرماء، والمغصوبُ منه أسوةُ الغرماء، لأنّه زال مِلكُه عنها وصار مِلكاً للغاصب."…………. والخلاصةُ أنّ الغاصبَ إن خَلَطَ المغصوبَ بماله، مَلَكه وحلّ له الانتفاعُ بقدر حصّته على أصل أبى حنيفة ومحمّد رحمه الله تعالى. فإن باعه أو وهبه بقدر حصّته، جاز للآخذ الانتفاعُ به. أمّا إذا باع أو وهب بعد استنفاد حصّته من الحلال، فيدخل فى الصّورة الثّانية الّتى كلُّ المخلوط فيها مغصوب، ولايحلّ له الانتفاعُ به، ولاللّذى يشترى أو يتّهب منه حتّى يؤدّى البدلَ إلى المغصوب منه. فأمّا إذا لم يعلم الآخذ منه كم حصّة الحلال فى المخلوط، يعمل بغلبة الظّنّ، فإن غلب على ظنّه أنّ قدرَ مايتعامل به حلالٌ عنده، فلابأس بالتّعامل، كما سيأتى فى الصّورة الرّابعة.
الصّورة الرابعة: أنّ المال مركّبٌ من الحلال والحرام، ولايُعرف أنّ الحلال مميَّزٌ من الحرام أو مخلوطٌ غير مميَّز. وإن كان مخلوطاً فكم حصّةُ الحلال فيه. و الأولى فى هذه الصّورة التنزّه، ولكن يجوز للآخذ أن يأخذَ منه بعضَ ماله هبةً أو شراءً، لأنّ الأصل الإباحة. وينبغى أن يُقيّد ذلك بأن يغلب على ظنّ الآخذ أنّ الحلالَ فيه بقدر ما يأخذه أو أكثرُ منه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1142 Jan 19, 2020
Milawat wala masala bechne aur us say haasil honay wali aamdni ka hukm, Jis shakhs kay paas haram maal ho us say qarz lainay ka hukm, Ruling on selling impure spices and profit earned from it, Ruling on taking loan from a person who has Haram wealth

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.