سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میری بھابھی، بھائی سے جھگڑ کر تقریبا ایک سال سے اپنے میکے میں ہیں، اس دوران تین دفعہ انہیں منانے کی کوشش کی گئی، لیکن آخری دفعہ تو انہوں نے ہمارے بزرگوں کو یہ تک کہہ دیا کہ میں اب اس جہنم میں نہیں جاؤں گی۔
اس تناظر میں آپ سے سوال ہے کہ کیا بھائی اور بھابھی کا نکاح باقی ہے یا ختم ہو چکا ہے؟
کیا بغیر خلع لیے بھابھی دوسری جگہ شادی کر سکتی ہیں؟
کیا اس صورت میں بھابھی کو حق مہر دیا جائےگا، جب کہ وہ خود آنا نہیں چاہتیں اور حد تو یہ ہے کہ اپنے شوہر کے گھر کو جہنم کہہ رہی ہیں؟
جواب: (1) واضح رہے کہ عورت کے محض گھر چھوڑ کر چلے جانے سے نکاح ختم نہیں ہوتا۔
(2) جب تک عورت کا پہلا نکاح باقی ہو، اس سے دوسرا نکاح نہیں کیا جا سکتا ہے۔
(3) جی ہاں! گھر چھوڑ کر چلے جانے کے باوجود حق مہر ادا کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (الفصل الثانی فیما یتأکد بہ المہر و المتعۃ، 303/1)
والمہر یتأکد باحد معان ثلاثۃ الدخول والخلوۃ الصحیحۃ وموت احد الزوجین سواء کان مسمی او مہر المثل حتی لا یسقط منہ شییٔ بعد ذلک الا بالابراء۔
و فیھا ایضا: (القسم السادس المحرمات التی یتعلق بہا حق الغیر، 289/1)
لا یجوز للرجل ان یتزوج زوجۃ غیرہ وکذلک المعتدۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی