سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ہمارے معاشرے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ لڑکے کی شادی کرنے میں تو اس کی رضامندی کا پورا خیال رکھتے ہیں، جبکہ لڑکی کی شادی میں اس کی رضامندی کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، بلکہ جو خود مناسب سمجھتے ہیں، فیصلہ کر دیتے ہیں، شریعت کی رو سے اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ نکاح میں لڑکی کی رضامندی کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے، اگرچہ شریف خاندان کی لڑکیاں اپنے والدین پر اعتماد کرتی ہیں، کیونکہ والدین اپنی اولاد کے لیے اپنے تجربے کی بنیاد پر بہتر رشتے کا انتخاب کرتے ہیں، تاہم والدین کو چاہیے کہ وہ فیصلہ کرنے سے پہلے لڑکی کا رجحان ضرور معلوم کرلیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (کتاب النکاح، 287/1، ط: زکریا)
لایجوز نکاح أحد علی بالغۃ صحیحۃ العقل من أب أو سلطان بغیر إذنہا، بکرًا کانت أو ثیبًا، فإن فعل ذٰلک فالنکاح موقوف علی إجازتہا، فإن أجازتہ جاز، وإن ردتہ بطل، کما في السراج الوہاج۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی