سوال:
حضرت ! اگر ہم ایک دوسرے کے لیے استغفار کریں، تو کیا اس سے دوسرے کو فائدہ ہو گا، جبکہ استغفار کی اصل دل میں ندامت ہے، اگر ہم غائبانہ طور پر کسی کے لیے استغفار کریں تو اس کے دل میں ندامت تو نہیں ہو گی؟ جبکہ اللہ پاک نبی ﷺ سے فرماتے ہیں کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں، تو اس کا کیا مطلب ہوگا؟ جزاک اللہ خیرا
جواب: استغفار ‘‘ کے معنی اللہ سے مغفرت وبخشش کی دعا کرنے کے ہیں اور استغفار دراصل اپنے لئے مغفرت کی دعا ہے، اگر کوئی شخص استغفار کرکے اس کا اجر وثواب میت کو پہنچانے کی دعا کرے، تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ثواب میت کو پہنچا دیں گے۔ اس اعتبار سے میت کے لئےاستغفار کا ورد کرنے میں حرج نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص اس نیت سےاستغفار کے کلمات پڑھے کہ وہ میت کی طرف سے مغفرت طلب کررہا ہے، تو یقینا یہ خلافِ واقعہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (باب صلاۃ الجنازۃ، 243/2، ط: قدیمی)
ویقرأ من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحة وأول البقرة إلی المفلحون وآیة الکرسي․․ وسورة یسین و سورة الإخلاص اثنی عشرة مرة أوعشرا أو سبعا أو ثلاثا ثم یقول: اللہم أوصل ثواب وما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم...
وفی البحر:من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔
الفتاوی الھندیۃ: (کتاب المناسک، 257/1، ط: رشیدیہ)
الأصل فی ہذا الباب أن الإنسان لہ أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ، أو صوما، أو صدقۃ، أو غیرہا عند أہل السنۃ والجماعۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی