resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: "یہ سب ختم ہے" ، "جو چاہے کرو"، "میں جا رہا ہوں"، "تو پھر طلاق لے لو"، "مجھے اکیلا چھوڑ دو" کے الفاظ سے طلاق کا حکم

(34611-No)

سوال: میں آپ سے اپنے نکاح کے بارے میں شرعی رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہوں، کئی سالوں کے دوران میری اور میری بیوی کے درمیان بہت سے جھگڑے ہوئے، ان جھگڑوں کے دوران میں نے بعض اوقات اس طرح کے جملے کہے: “یہ سب ختم ہے” “جو چاہے کرو” “میں جا رہا ہوں” “تو پھر طلاق لے لو” “مجھے اکیلا چھوڑ دو”
ان میں سے اکثر مواقع پر میرا مقصد صرف اپنے غصے کا اظہار کرنا، اسے ردِعمل پر مجبور کرنا یا ہلکی سی دھمکی دینا ہوتا تھا، لیکن میں اس بات کا یقین نہیں کر سکتا کہ بعض لمحوں میں واقعی میرا ارادہ طلاق دینے کا نہیں تھا یا تھا؟ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی واضح اور صریح الفاظ میں طلاق دی ہو، اب مجھے شک اور خوف لاحق ہے کہ کہیں ان مبہم جملوں کی وجہ سے میرا نکاح درست نہ رہا ہو تو کیا آپ شریعت کی روشنی میں میری رہنمائی فرما سکتے ہیں اور یہ بتا سکتے ہیں کہ آیا میرا نکاح برقرار ہے یا نہیں؟

جواب: اگر واقعتاً "یہ سب ختم ہے" اور "جو چاہے کرو"كے الفاظ آپ نے طلاق کی نیت کے بغیر کہے ہیں تو ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اسی طرح "تو پھر طلاق لے لو"کے الفاظ سے اگر واقعتاً آپ کی نیت طلاق کی نہ ہو تو حلفیہ بیان کے ساتھ آپ کی اس بات کا اعتبار ہوگا۔ باقی الفاظ یعنی"میں جا رہا ہوں"، "مجھے اکیلا چھوڑ دو"، ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الهندية: (1/ 376، ط: دار الفكر)
«ولو قال ‌لم ‌يبق ‌بيني وبينك شيء ونوى به الطلاق لا يقع وفي الفتاوى ‌لم ‌يبق ‌بيني وبينك عمل ونوى يقع كذا في العتابية.»

الهداية في شرح بداية المبتدي: (1/ 235، ط: دار إحياء التراث العربي)
«قال: " إلا أن يكون في حال مذاكرة الطلاق فيقع بها الطلاق في القضاء ولا يقع فيما بينه وبين الله تعالى إلا أن ينويه " قال رضي الله عنه " سوى بين هذه الألفاظ وقال ولا يصدق في القضاء إذا كان في حال مذاكرة الطلاق " قالوا " وهذا فيما لا يصلح ردا " والجملة في ذلك أن الأحوال ثلاثة حالة مطلقة وهي حالة الرضا وحالة مذاكرة الطلاق وحالة الغضب.
والكنايات ثلاثة ‌أقسام ما يصلح جوابا وردا وما يصلح جوابا لا ردا وما يصلح جوابا وسبا وشتيمة ففي حالة الرضا لا يكون شيء منها طلاقا إلا بالنية فالقول قوله في إنكار النية لما قلنا وفي حالة مذاكرة الطلاق لم يصدق فيما يصلح جوابا ولا يصلح ردا في القضاء مثل قوله خلية برية بائن بتة حرام اعتدي أمرك بيدك اختاري لأن الظاهر أن مراده الطلاق عند سؤال الطلاق ويصدق فيما يصلح جوابا وردا مثل قوله اذهبي اخرجي قومي تقنعي تخمري وما يجري هذا المجرى لأنه يحتمل الرد وهو الأدنى فحمل عليه وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها لأن الغضب يدل على إرادة الطلاق وعن أبي يوسف رحمه الله في قوله لا ملك لي عليك ولا سبيل لي عليك وخليت سبيلك وفارقتك أنه يصدق في حالة الغضب لما فيها من احتمال معنى السب»

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce