سوال:
میں چار سال سے اپنے شوہر کے ساتھ ہوں اور ہمارے دو پیارے بچے ہیں۔ دو ماہ پہلے میرے ہاں ولادت ہوئی ہے اور ساتھ ہی ناف کے ہرنیا (Umbilical Hernia) کی ایمرجنسی سرجری بھی ہوئی، جس کی وجہ سے مجھے سخت آرام کی ضرورت ہے۔
عمومی طور پر میرے شوہر اور میرے درمیان تعلقات ٹھیک رہتے ہیں، لیکن جب بھی وہ کسی بات پر پریشان یا غصے میں ہوتے ہیں، چاہے اس کا تعلق مجھ سے براہِ راست نہ بھی ہو تو ان کا رویہ میرے ساتھ بدل جاتا ہے۔ دفتر کے مسائل، کسی چیز کو دیکھ کر پیدا ہونے والی جھنجھلاہٹ یا میرے خاندان سے متعلق معاملات اکثر ہمارے تعلق پر منفی اثر ڈال دیتے ہیں۔
ایسی صورت میں تین باتیں بار بار سامنے آتی ہیں: پہلی یہ کہ ان کے لہجے اور اندازِ گفتگو میں بے ادبی آ جاتی ہے، اگرچہ وہ مجھے براہِ راست گالی یا توہین نہیں کرتے۔ دوسری یہ کہ وہ کئی دنوں تک مجھ سے بات چیت بند کر دیتے ہیں اور پھر بغیر کسی معذرت کے ایسے دوبارہ بات شروع کر لیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر محبت اور قربت کا اظہار ختم کر دیتے ہیں، نہ نرمی، نہ توجہ، نہ جذباتی سہارا اور آہستہ آہستہ یہ رویہ معمول بنتا جا رہا ہے۔
تنازع کا ایک بڑا سبب میرا خاندان ہے، خاص طور پر میرے بھائی۔ اگرچہ وہ اکثر کہتے ہیں کہ انہیں میرے والدین سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن وہ میرے والدین کے گھر جانا پسند نہیں کرتے کیونکہ وہاں میرے بہن بھائی اکثر موجود ہوتے ہیں۔ پہلے ہم ایک سمجھوتے پر متفق ہوئے تھے کہ وہ مہینے میں ایک یا دو بار تھوڑی دیر کے لیے میرے والدین کے گھر جائیں گے۔
حال ہی میں میرے والدین کے گھر ایک دن گزارنے کے بعد انہوں نے میری والدہ کا مذاق اڑایا۔ جب میں نے اپنی ناگواری کا اظہار کیا تو انہوں نے برا ردِعمل دیا، اور بعد میں یہ اشارہ بھی دیا کہ وہ مستقبل میں میرے والدین کے گھر جانا بالکل چھوڑ دیں گے۔ جب میں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ مجھے یہ بات ناانصافی لگتی ہے تو وہ مجھےمیری طبی حالت کے باوجود بیگ اور بچوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔
یہ مسلسل رویہ مجھے دن بہ دن زیادہ مجروح اور جذباتی طور پر تھکا رہا ہے اور اب میں سوچنے لگی ہوں کہ مجھے کون سا رویہ اختیار کرنا چاہیے، کیونکہ وقت کے ساتھ یہ صورتِ حال مجھے اندر سے زیادہ متاثر کر رہی ہے۔ اب میں طلاق کے بارے میں سوچنے لگی ہوں۔ اس سلسلہ میں رہنمائی فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ عورت کے لیے اپنے شوہر سے بلا وجہ طلاق کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے، چنانچہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"جو عورت بغیر کسی( شرعی )وجہ کے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔" (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:2226)
البتہ چند شرعی وجوہات کی بناء پر عورت کے لیے طلاق کا مطالبہ کرنا جائز ہے، وہ وجوہات درج ذیل ہیں:
1: میاں بیوی کے مزاج میں سخت اختلاف ہو اور باہمی ہم آہنگی ممکن نہ ہو۔
2: میاں بیوی کا ساتھ رہنے کی صورت میں دینی احکام پر عمل کرنا مشکل ہو جائے۔
3: شوہر بیوی پر ظلم و زیادتی کرتا ہو مثلاً: شوہر مار پیٹ کرتا ہو وغیرہ۔
ان وجوہات کی بنیاد پر عورت کا طلاق کا مطالبہ کرنا جائز ہے، لیکن صرف وقتی ناراضگی یا معمولی اختلاف کی بناء پر طلاق کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے، نیز مذکورہ صورت میں اگر شوہر بیوی اور بچوں کو والدین کے گھر چھوڑ کر ان کے شرعی حقوق ادا نہیں کر رہا تو اس کا یہ رویّہ شرعاً درست نہیں، لہذا اس پر لازم ہے کہ انہیں اپنے ساتھ رکھے اور ان کے شرعی حقوق ادا کرے۔
جہاں تک بیوی کے اس مطالبے کا تعلّق ہے کہ شوہر اُس کے والدین کے گھر جائے اور کچھ وقت وہاں گزارے تو شرعی اعتبار سے شوہر پر اس مطالبے کو پورا کرنا لازم نہیں، تاہم اخلاقاً اور معاشرتی لحاظ سے بہتر یہی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے والدین سے اچھا تعلّق رکھے، کبھی کبھار ان کے گھر جا کر ملاقات کرلیا کرے اور تعلّقات میں خوشگواری پیدا کرنے کی کوشش کرے، تاکہ بیوی کے دل میں شوہر کے لیے عزّت، محبّت اور اعتماد پیدا ہو اور میاں بیوی کا رشتہ حسنِ سلوک اور باہمی محبتوں کے ساتھ قائم رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 228)
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ... الخ
وقوله تعالی: (البقرۃ، الایة: 229)
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ o
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث: 2226، 268/2، ط: المكتبة العصرية)
حدثنا سليمان بن حرب ،ثنا حماد ، عن أيوب ، عن أبى قلابة ، عن أبى أسماء ، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أيما امرأة سألت زوجها طلاقاً في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة".
الفتاوی الهندية:(488/1، ط: دار الفكر)
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.
رد المحتار:(کتاب الطلاق، باب النفقات،572/3،ط:سعید)
وشرعا: (هي الطعام والكسوة والسكنى) وعرفا هي: الطعام (ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو؛ لأنها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة بحر (على زوجها) ؛ لأنها جزاء الاحتباس.
نجم الفتاویٰ:(کتاب الطلاق، 41/6،ط: دارالعلوم یاسین القرآن)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی