سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ہمارے محلے کے ایک بزرگ ساتھی نے کہا کہ جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو، وہ صاحب مال ہے، اور اس پر حج فرض ہو جاتا ہے، کیا یہ بات صحیح ہے کہ جو صاحب نصاب ہو، اس پر حج فرض ہے؟
جواب: واضح رہے کہ ذکر کردہ صورت میں حج فرض نہیں ہوتا، بلکہ حج اس شخص پر فرض ہوتا ہے، جس کے پاس اتنی رقم موجود ہو، جس سے وہ حج کے تمام اخراجات پورے کر سکتا ہو، اور واپس آنے تک گھر میں اہل و عیال کا خرچہ بھی موجود ہو۔
موجودہ دور میں حکومت کی طرف سے حج کے لئے جتنی رقم کا اعلان ہوتا ہے، اگر اتنی رقم اور مزید گھر میں اہل وعیال کے خرچہ کی رقم موجود ہو، تو حج فرض ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (217/1)
وتفسیر ملک الزاد والراحلۃ ان یکون لہ مال فاضل عن حاجتہ وھو ما سوی مسکنہ و لبسہ وخدمہ وأثاث بیتہ قدرما یبلغہ الی مکۃ ذاھبا وجائیاً۔
رد المحتار: (459/1)
(قولہ ذی زاد وراحلۃ) إفاد أنہ لایجب إلا بملک الزاد وملک أجرۃ الراحلۃ،فلا یجب بالاباحۃ أو العاریۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی