عنوان:
آٹھ سال کے بچے کی پرورش کا حق ماں باپ میں سے کس کو حاصل ہوگا؟
(3939-No)
سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میرا بیٹا (جس کی عمر آٹھ سال ہے) میری پہلی بیوی (جسے میں نے چھ سال پہلے طلاق دے دی تھی) کے پاس ہے، گزشتہ ایک سال سے میں بیٹے کا نفقہ بھیج رہا ہوں، لیکن میری سابقہ اہلیہ اسے واپس کردے رہی ہے، میں بچے سے ملنے گیا تو اس کا بھی برا منایا گیا، چونکہ میرے سسر کا انتقال ہو چکا ہے، اس لیے میں نے اپنی سابقہ اہلیہ کے ماموں سے کہا کہ جتنا آپ نے اس بچے پر خرچ کیا ہے، وہ میں ادا کر دیتا ہوں اور بچہ میرے حوالے کر دیں، لیکن انہوں نے دو سال سے اس کا بھی جواب نہیں دیا، اس تناظر میں شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں؟
جواب: اگر طلاق وغیرہ کی وجہ سے میاں بیوی دونوں کے درمیان جدائی ہو جائے تو عورت لڑکے کو سات برس اور لڑکی کو نو برس تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے، بشرطیکہ وہ عورت کسی ایسے آدمی سے جو بچوں کا غیر محرم ہو شادی نہ کرلے۔
لہذا صورت مسئولہ میں بچہ کی عمر جب آٹھ سال ہے تو اس کی پروش کا شرعی حق والد کو ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (باب مَنْ أَحَقُّ بِالْوَلَدِ، رقم الحدیث: 2276)
حدثني عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده عبد الله بن عمرو، ان امراة قالت: يا رسول الله، إن ابني هذا كان بطني له وعاء وثديي له سقاء وحجري له حواء، وإن اباه طلقني واراد ان ينتزعه مني، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انت احق به ما لم تنكحي".
الفتاوى الهندية: (542/1، ط: دار الفکر)
وَالْأُمُّ وَالْجَدَّةُ أَحَقُّ بِالْغُلَامِ حَتَّى يَسْتَغْنِيَ وَقُدِّرَ بِسَبْعِ سِنِينَ وَقَالَ الْقُدُورِيُّ حَتَّى يَأْكُلَ وَحْدَهُ وَيَشْرَبَ وَحْدَهُ وَيَسْتَنْجِيَ وَحْدَهُ وَقَدَّرَهُ أَبُو بَكْرٍ الرَّازِيّ بِتِسْعِ سِنِينَ وَالْفَتْوَى عَلَى الْأَوَّلِ وَالْأُمُّ وَالْجَدَّةُ أَحَقُّ بِالْجَارِيَةِ حَتَّى تَحِيضَ وَفِي نَوَادِرِ هِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدٍ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – إذَا بَلَغَتْ حَدَّ الشَّهْوَةِ فَالْأَبُ أَحَقُّ وَهَذَا صَحِيحٌ هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ……..وَبَعْدَمَا اسْتَغْنَى الْغُلَامُ وَبَلَغَتْ الْجَارِيَةُ فَالْعَصَبَةُ أَوْلَى يُقَدَّمُ الْأَقْرَبُ فَالْأَقْرَبُ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ.
البحر الرائق: (184/4، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قَوْلُهُ وَالْأُمُّ وَالْجَدَّةُ أَحَقُّ بِالْغُلَامِ حَتَّى يَسْتَغْنِيَ وَقُدِّرَ بِسَبْعٍ) ؛ لِأَنَّهُ إذَا اسْتَغْنَى يَحْتَاجُ إلَى تَأْدِيبٍ وَالتَّخَلُّقِ بِآدَابِ الرِّجَالِ وَأَخْلَاقِهِمْ وَالْأَبُ أَقْدَرُ عَلَى التَّأْدِيبِ وَالتَّعْنِيفِ وَمَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ مِنْ التَّقْدِيرِ بِسَبْعٍ قَوْلُ الْخَصَّافِ اعْتِبَارًا لِلْغَالِبِ؛ لِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الصَّغِيرَ إذَا بَلَغَ السَّبْعَ يَهْتَدِي بِنَفْسِهِ إلَى الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ وَاللُّبْسِ وَالِاسْتِنْجَاءِ وَحْدَهُ فَلَا حَاجَةَ إلَى الْحَضَانَةِ…...ﻭﻓﻲ ﻏﺎﻳﺔ اﻟﺒﻴﺎﻥ ﻭاﻟﺘﺒﻴﻴﻦ ﻭاﻟﻜﺎﻓﻲ ﺃﻥ اﻟﻔﺘﻮﻯ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻝ اﻟﺨﺼﺎﻑ ﻣﻦ اﻟﺘﻘﺪﻳﺮ ﺑﺎﻟﺴﺒﻊ……وَبِهَا حَتَّى تَحِيضَ) أَيْ: الْأُمُّ وَالْجَدَّةُ أَحَقُّ بِالصَّغِيرَةِ حَتَّى تَحِيضَ؛ لِأَنَّ بَعْدَ الِاسْتِغْنَاءِ تَحْتَاجُ إلَى مَعْرِفَةِ آدَابِ النِّسَاءِ وَالْمَرْأَةُ عَلَى ذَلِكَ أَقْدَرُ وَبَعْدَ الْبُلُوغِ تَحْتَاجُ إلَى التَّحْصِينِ وَالْحِفْظِ وَالْأَبُ فِيهِ أَقْوَى وَأَهْدَى.
الھداية: (کتاب الطلاق، 291/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
" ونفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كما لا يشاركه في نفقة الزوجة " لقوله تعالى: {وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ}(اﻟﺒﻘﺮﺓ: 233)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
Aath, saah, 8, kay, ke, bacchay, bacche, ki, ke, parwarish, ka, haq, maan, baap, mein, main, say, se, kis, ko, kisko, haasil, hoga,
Who among the parents has the right to raise an eight-year-old child?, Right of raising child