سوال:
مفتی صاحب ! وضاحت فرما دیں کہ شریعت میں منگنی کی دعوت کا کیا تصور ہے؟
جواب: واضح رہے کہ منگنی کی تقریب کے موقع پر نام ونمود کے لیے مختلف قسم کی فضول خرچیوں، رسوم ومنکرات اور معاصی کے ساتھ با قاعدہ دعوت کے اہتمام کو ترک کرنا لازم ہے، البتہ ان چیزوں کے اہتمام کے بغیر اگر دو خاندانوں کے درمیان رشتہ داری کے معاملات طے کرنے کے لیے فریقین کے چند افراد جمع ہوجائیں، اور ان کے لیے دعوت کا انتظام کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الموسوعة الفقهية الكويتية: (كلمة: الدعوة، ثانيا:الدعوة (إلى الطعام)ِ ، التطفل على الدعواتِ ، 20 / 336، وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)
" قال الحنفية: وليمة العرس سنة، وفيها مثوبة عظيمة. وقال المالكية: وليمة العرس مندوبة، وقيل: واجبة. وقال الشافعية: وليمة العرس وغيره سنة؛ لثبوتها عنه صلى الله عليه وسلم قولاً وفعلاً.
وقال الحنابلة: الأصل في جميع الدعوات المسماة وغير المسماة أنها جائزة، أي مباحة؛ لأن الأصل في الأشياء الإباحة. ويستثنى من ذلك ثلاثة أنواع: وهي: وليمة العرس فإنها سنة مؤكدة، وقيل واجبة، والعقيقة فإنها سنة، والمأتم فإنه مكروه وهو اجتماع النساء في الموت. وفي المغني خلاف ذلك، قال: حكم الدعوة للختان وسائر الدعوات غير الوليمة أنها مستحبة".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی