سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک عورت کے شوہر کا چھ ماہ پہلے انتقال ہوا، اس کے دو بچے ہیں، ایک چار سال کا بیٹا اور ایک بیٹی ہے، جو شوہر کی وفات کے بعد پیدا ہوئی ہے، بیوہ کے والدین وفات پا چکے ہیں، صرف چار شادی شدہ بہنیں ہیں، دوسری طرف شوہر کے والد، دو کنوارے بھائی اور ایک بہن ہے، گھر کرایہ کا ہے اور شوہر نے ترکہ میں بھی کچھ نہیں چھوڑا، بچوں کے دادا بھی عرصہ سے بے روزگار ہیں، ایسی صورت میں بچوں کی کفالت کس کے ذمہ ہو گی؟
جواب: صورت مسئولہ میں یتیم بچوں کی کفالت اور پرورش کی شرعا ذمہ داری ان کے دادا پر ہوگی، چونکہ دادا کماتے نہیں ہیں، اس لیے ان کی نگرانی میں بچوں کے چچا ان کا خرچ برداشت کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 233)
وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ....الخ
أحکام القرآن للتھانوی: (403/1، ط: کراتشی)
"المراد بالوارث وارث الولد؛ فإنہ یجب علیہ مثل ما وجب علی الأب من الرزق والکسوۃ بالمعروف إن لم یکن للولد مال - إلی قولہ - وخص الإمام أبو حنیفۃ ہٰذا الوارث بمن کان ذا رحم محرم من الصبي، وبہٖ قال حماد".
أحکام القرآن للجصاص: (407/1، ط: لاھور)
تفسیر المدارک: (ص: 94)
الھدایة: (446/2)
’’النفقۃ لکل ذی رحم محرم إذا کان صغیرا فقیرا أو کانت امرأۃ بالغۃ فقیرۃ أو کان ذکرا بالغا فقیرا زمنا أو أعمیٰ ، و یجب ذلک علی مقدار المیراث و یجبر علیہ".
الفتاوی الکاملیة:
"من مات عن ابن صغیر لا مال لہ وجدّ الصغیر حی۔ ۔ اۃ لکن ابوہ مات فالنفقۃ ای نفقۃ الصغیر علی جدہ".
العنایة شرح الھدایة: (410/4- 411)
"مذہب الجمہور اِلی وجوب النفقۃ لسائر الفروع، وان نزلوا، لأن الولد یشمل الولد المباشر وما تفرع منہ، ولأن النفقۃ تجب عندہم بالجزئیۃ لا بالارث، و ولد الولد وان نزل بعض من جدہ، فوجبت النفقۃ علیہ، واِن لم یکن وارثاً منہ".
رد المحتار: (مطلب لو کانت الإخوۃ أو الأعمام غیر مامونین)
"الجد بمنزلۃ الأب فیه فیما ذکر أي من أحکام البکر والثیب والغلام والتأدیب".
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی