سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک لڑکی اور لڑکے نے کورٹ میرج کیا، لڑکی کی طرف سے ایک گواہ اس کی ماں تھی، جب کہ دوسرا گواہ وہ تھا جو لڑکے کی طرف سے بھی گواہ تھا، مہر میں دو لاکھ روپے طے ہوئے اور ایک شرط یہ بھی رکھی گئی کہ جس کی طرف سے نکاح ختم ہوگا وہ بطور جرمانہ تیرہ لاکھ روپے ادا کرے گا، اب تیرہ سال گزر گئے ہیں، لیکن نہ تو رخصتی ہوئی اور نہ ہی کوئی دوسرا قدم اٹھایا گیا ہے، اب لڑکا طلاق دینے کی بات کر رہا ہے، اس ضمن میں پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ نکاح منعقد ہوا ہے؟
اگر ہوا ہے تو مہر مکمل ادا کرنا پڑے گا یا کچھ کمی ہوگی، نیز جرمانے کی کیا صورت ہوگی؟
جواب: اگر نکاح کے گواہ پورے تھے، اور شریعت کے مطابق تھے، تو نکاح ہو گیا، البتہ طلاق دینے کی صورت میں جو مالی جرمانہ کی شرط لگائی گئی تھی، وہ شرط، شرط فاسد ہونے کی وجہ سے ختم ہو گئی، کیونکہ اس قسم کی شرط لگانا جائز نہیں ہے، اس لئے طلاق دینے کی وجہ سے شوہر پر مالی جرمانہ کی ادائیگی لازم نہیں ہو گی۔
نکاح کے بعد رخصتی اور خلوت صحیحہ سے قبل طلاق دینے کی صورت میں مقررہ مہر (دو لاکھ) کا نصف (ایک لاکھ) دینا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 237)
وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّآ اَنْ يَّعْفُوْنَ اَوْ يَعْفُوَ الَّذِىْ بِيَدِهٖ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَاَنْ تَعْفُوٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۚ وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo
رد المحتار: (61/4)
قولہ: لا بأخذ المال في المذہب، قال في الفتح: وعن أبي یوسفؒ یجوز التعزیر للسطان بأخذ المال، وعندہما وباقي الأئمۃ لایجوز، ومثلہ في المعراج، وظاہرہ إن ذلک روایۃ ضعیفۃ عن أبي یوسفؒ قال: في الشرنبلالیۃ: ولا یفتی بہذا لما فیہ من تسلیط الظلمۃ علی أخذ مال الناس فیأکلونہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی