سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! شوہر نے ایک دن چھوٹی سی بات پر اپنے چھوٹے بھائی کے سامنے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، چھوٹے بھائی کا کہنا ہے کہ اس نے خود اپنے کانوں سے سنا ہے کہ بھائی نے بھابھی کو تین طلاقیں دی ہیں اور بڑا بھائی یعنی شوہر نے بھی اقرار کیا کہ میں نے تین طلاقیں دی ہیں، لیکن بیوی نے کہا کہ میں نے دو طلاقیں سنی ہے تین نہیں، یہ معاملہ جب مفتیان کرام کے پاس پہنچا، تو انہوں نے سوچ بچار کر یہ جواب دیا کہ قرآن پاک پر اس لڑکی کا ہاتھ رکھوا کر حلف لیا جائے اور پھر معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے اور لڑکی کے ہاتھ رکھ لینے پر طلاق واقع نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا گیا، چنانچہ دس سال سے دونوں میاں بیوی ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ درست فیصلہ کیا گیا تھا؟
جواب: صورت مسئولہ میں جب شوہر خود تین طلاقیں دینے کا اقرار کررہا ہے تو تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔صورت مسئولہ میں بیوی کا انکار ، کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (کتاب الطلاق، 264/3، ط: دار الکتاب الاسلامی)
ولو أقر بالطلاق وهو كاذب وقع في القضاء ۔۔۔۔إذا قال أردت به الخبر عن الماضي كذبا، وإن لم يرد به الخبر عن الماضي أو أراد به الكذب أو الهزل وقع قضاء وديانة۔
المبسوط للسرخسی: (133/6، ط: دار المعرفة)
أن من أقر بطلاق سابق یکون ذٰلک إیقاعا منہ في الحال؛ لأن من ضرورۃ الاستناد الوقوع في الحال، وہو مالک للإیقاع غیر مالک للاستناد۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی