سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میرے والد وفات پا گئے ہیں، الحمدللہ ان کا ترکہ سوائے استعمال کی چیزوں، مثلاً: کپڑے، پگڑی، عینک وغیرہ کے کچھ بھی نہیں ہے، تو اب پوچھنا یہ ہے کہ اگر ہم سب بہن بھائی مل کر کسی ایک کو اجازت دے دیں کہ وہ جس کو چاہے ترکہ دے دے، تو کیا یہ جائز ہے یا تقسیم کرنے کے بعد قبضے میں لے کر دینا ضروری ہے جیسا کہ "نصیباًمفروضا" میں آیا ہے؟
نوٹ:
ورثاء سب بالغ ہیں، اگر تقسیم کرنا ہو تو کیسے کریں گے؟
جواب: صورت مسئولہ میں مشورہ کے طور پر عرض کیا جاتا ہے کہ اگر ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں جن کی تقسیم کرنا مشکل ہے، تمام ورثاء کی دلی اجازت سے کسی ایک وارث کو دیدیں یا کسی غریب کو صدقہ میں دیدی جائیں یا کسی نیک آدمی کو ھدیہ کردی جائیں تو اس کا ثواب مرحوم کو بھی ملے گا اور تقسیم کا معاملہ بھی حل ہو جائے گا، البتہ واضح رہے کہ یہ صورت اس وقت ہے جب تمام ورثاء اس پر دلی طور پر راضی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الدار قطنی: (424/3، ط: مؤسسة الرسالة)
عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه»
الھندیة: (167/2، ط: دار الفکر)
لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي كذا في البحر الرائق.
مجلة الاحکام: (230/1، ط: نور محمد)
كل يتصرف في ملكه كيفما شاء.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی