سوال:
السلام عليكم، مفتی صاحب ! تراویح کی نماز کے بارے میں بعض لوگوں سے سنا ہے کہ چونکہ یہ فرض نہیں ہے، اس لیے ہم نہیں پڑھتے، تو کیا یہ بات درست ہے؟
نیز یہ بھی بتائیں کہ ایک عورت جو بیمار شوہر کی تیمار داری میں مصروف ہے، کیا اس کے لیے اس بات کی اجازت ہے کہ تراویح کی نماز چھوڑ دے؟
جواب: 1: واضح رہے کہ تراویح سنتِ مؤکدہ ہے، اور سنت مؤکدہ کو بلاعذر چھوڑنے کا گناہ واجب کے چھوڑنے کے گناہ کے برابر ہے، اور جو لوگ تراویح کو غیر ضروری سمجھ کر اس کے چھوڑ دینے کو جائز سمجھتے ہیں، وہ بہت بڑی سنگین غلطی میں مبتلاء ہیں، اور یہ ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی کا سبب ہے۔
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا فرمان ہےکہ:
"جو شخص آداب میں سستی کرتا ہے، تو اس کو سنتوں سے محرومی کی سزاملتی ہے، اور جو شخص سنتوں میں سستی کرتا ہے، تو اس کو فرائض سے محرومی کی سزا ملتی ہے، اور جو شخص فرائض میں سستی کرتا ہے، تو اس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت سے محرومی کی سزا ملتی ہے"
2: صورت مسئولہ میں وہ عورت مختصر بیس رکعت تراویح، وقفے وقفے سے پڑھ لے، اور اس وقفے کے دوران بیمار شوہر کی خدمت بھی کرتی رہے، سرے سے تروایح پڑھنا نہ چھوڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (کتاب الصلاۃ، الباب التاسع في النوافل)
رجل ترك سنن الصلاة إن لم ير السنن حقا فقد كفر لأنه تركها استخفافا وإن رآها حقا فالصحيح أنه يأثم لأنه جاء الوعيد بالترك
بدائع الصنائع: (کتاب الصلاۃ، فصل السنة إذا فاتت عن وقتها هل تقضى أم لا)
أما صفتها فهي سنة كذا روى الحسن عن أبي حنيفة أنه قال : القيام في شهر رمضان سنة لا ينبغي تركها
رد المحتار: (باب الوتر و النوافل، 12/2، ط: دار الفکر)
مطلب في السنن والنوافل
(قوله وسن مؤكدا) أي استنانا مؤكدا؛ بمعنى أنه طلب طلبا مؤكدا زيادة على بقية النوافل، ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبة من الواجب في لحوق الإثم كما في البحر، ويستوجب تاركها التضليل واللوم كما في التحرير: أي على سبيل الإصرار بلا عذر كما في شرحه وقدمنا بقية الكلام على ذلك في سنن الوضوء.
شعب الإيمان: (کتاب الصلاۃ، قيام شهر رمضان، 559/4، ط: مکتبة الرشد)
سمعت الحسن بن عرفة، يقول: سمعت ابن المبارك، يقول: " من تهاون بالأدب عوقب بحرمان السنن، ومن تهاون بالسنن عوقب بحرمان الفرائض، ومن تهاون بالفرائض عوقب بحرمان المعرفة "
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی