سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب !
ہماری مسجد میں سحری کا الارم چار بج کر انتالیس منٹ پر دیا گیا اور کچھ سیکنڈ چلنے کے بعد اذان فجر دے دی گئی، جب صبح صادق کا وقت چارٹ میں دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ صبح صادق کا وقت چار بج کر اڑتیس منٹ پر تھا، یعنی ایک منٹ دير سے الارم بجایا گیا، مسجد کی گھڑی چیک کی گئی تو پتا چلا کہ گھڑی ایک منٹ پیچھے چل رہی تھی، اس تناظر میں مفتیان کرم درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ اپارٹمنٹ کے جن لوگوں نے الارم پر روزہ رکھا ہے، تو کیا ایک منٹ دیر ہونے کی وجہ سے ان سب کو رمضان کے بعد روزہ کی قضاء کرنا ہو گی یا اس میں علم نہ ہونے کی وجہ سے گنجائش کی کوئی صورت نکل سکتی ہے؟
اور ابھی تو الحمدللہ ہم نے گھڑی اپنے وقت پر کر دی ہے، لیکن یہ گھڑی کا معاملہ کب سے چل رہا ہے، یہ بھی معلوم نہیں، اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مفتیان کرام قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں؟
جواب: واضح رہے کہ نقشۂ اوقات میں صبح صادق یا انتہائے سحر کا جو وقت لکھا ہوتا ہے، اس سے چار پانچ منٹ پہلے احتیاطاً کھانا پینا بند کردینا چاہیے، البتہ یہ حسابات چونکہ تخمینی ہوتے ہیں اور گھڑیوں کا فرق بھی عام طور پر ہوتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں اگر نقشہ کے وقت سے ایک منٹ آگے پیچھے روزہ رکھ لیا ہو تو روزہ ہوجائے گا، دوبارہ قضاء کرنے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ آئندہ کے لیے احتیاط پر عمل کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (371/2، ط: دار الفکر)
(قوله: وهو اليوم) أي اليوم الشرعي من طلوع الفجر إلى الغروب، وهل المراد أول زمان الطلوع أو انتشار الضوء؟ فيه خلاف كالخلاف في الصلاة والأول أحوط والثاني أوسع كما قال الحلواني كما في المحيط.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی