سوال:
مفتی صاحب! صحیح حدیث کی روشنی میں روزے کے فضائل بیان فرمادیں۔
جواب: روزے رکھنے سے متعلق حدیث میں کئی فضائل آئے ہیں، جن میں سے تین ذکر کیے جاتے ہیں:
1) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ روزہ خالص میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ بندہ اپنی شہوت، کھانا پینا میری رضا کے لیے چھوڑتا ہے اور روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی اس وقت جب وہ افطار کرتا ہے اور ایک خوشی اس وقت جب وہ اپنے رب سے ملتا ہے اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک عنبر کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔” (صحیح بخاری، حدیث نمبر:7492)
2) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب (حصول اجر و ثواب کی نیت) کے ساتھ رکھے، اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔” (صحیح بخاری، حدیث نمبر:2014)
3) ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: “روزے کو لازم پکڑو کیونکہ اس کے برابر کوئی عمل نہیں ہے۔” (سنن النسائی، حدیث نمبر:2224)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 7492، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا ابو نعيم، حدثنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يقول الله عز وجل: الصوم لي وانا اجزي به يدع شهوته، واكله وشربه من اجلي، والصوم جنة وللصائم فرحتان: فرحة حين يفطر، وفرحة حين يلقى ربه، ولخلوف فم الصائم اطيب عند الله من ريح المسك".
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2014، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: حفظناه وإنما حفظ من الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه"، تابعه سليمان بن كثير، عن الزهري.
سنن النسائی: (كتاب الصيام، رقم الحدیث: 2224، ط: مکتب المطبوعات الاسلامیة)
اخبرني عبد الله بن محمد الضعيف شيخ صالح والضعيف لقب لكثرة عبادته، قال: اخبرنا يعقوب الحضرمي، قال: حدثنا شعبة، عن محمد بن عبد الله بن ابي يعقوب، عن ابي نصر، عن رجاء بن حيوة، عن ابي امامة، انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم اي العمل افضل؟ قال:" عليك بالصوم فإنه لا عدل له".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی