سوال:
مفتی صاحب ! نماز جنازہ کا مکمل طریقہ اور اس میں پڑھی جانی والی دعا بتا دیں؟
جواب: صفوں کو درست کرنے کے بعد امام چار تکبیر کہے اور مقتدی بھی چار تکبیرات کہیں اور صرف پہلی تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھائیں، جیسا کہ عام نمازوں میں کانوں تک ہاتھ اٹھاتے ہیں اور بعد کی تین تکبیروں میں ہاتھ نہ اٹھائیں ۔ پہلی تکبیر پر ہاتھ اٹھاکر باندھ لیں، جیسا کہ عام نمازوں میں باندھتے ہیں، پھر ثناء پڑھیں، جیسا کہ عام نمازوں میں ثناء پڑھی جاتی ہے، پھر دوسری تکبیر کہہ کر درود شریف پڑھاجائے، جیسا کہ نماز میں درود ابراہیمی پڑھا جاتا ہے، پھر تیسری تکبیر کہہ کر میت کے لیے دعاکریں ، اگر میت بالغ مرد یا عورت ہے تو یہ دعا پڑھیں:
"اَللّٰهمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا وَ شَاهدِناَ وَ غَائِبِنَا وَ صَغِیْرِناَ وَ کَبِیْرِناَ وَ ذَکَرِناَ وَ اُنْثاَنَا ، اَللّٰهمَّ مَنْ أَحْیَیْتَه مِنَّا فَأَحْیِه عَلَی الِاسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الِایْمَانِ".
اور میت اگر نابالغ لڑکا ہو تو یہ دعا پڑھیں :
"اَللّٰهمَّ اجْعَلْه لَنَا فَرَطاً وَّ اجْعَلْه لَنَا اَجْراً وَّ ذُخْرا وَّ اجْعَلْه لَنَاشَافِعًا وَّ مُشَفَّعًا".
اور نابالغ لڑکی ہو تو یہ دعا پڑھیں:
" اَللّٰهمَّ اجْعَلْها لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْها لَنَا أَجْراً وَّ ذُخْراً وَّ اجْعَلْهالَنَا شَافِعَةً وَّ مُشَفَّعَةً".
پھر چوتھی تکبیر کہہ کر دونوں طرف سلام پھیردیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (209/2، ط: دار الفکر)
"(وركنها) شيئان (التكبيرات) الأربع، فالأولى ركن أيضاً لا شرط، فلذا لم يجز بناء أخرى عليها (والقيام) فلم تجز قاعدا بلا عذر. (وسنتها) ثلاثة (التحميد والثناء والدعاء فيها) ذكره الزاهدي، وما فهمه الكمال من أن الدعاء ركن .
و فیه ایضا: (213/2، ط: دار الفکر)
(وهي أربع تكبيرات) كل تكبيرة قائمة مقام ركعة (يرفع يديه في الأولى فقط) وقال أئمة بلخ في كلها: (ويثني بعدها) وهو " سبحانك اللهم وبحمدك " (ويصلي على النبي صلى الله عليه وسلم) كما في التشهد (بعد الثانية)؛ لأن تقديمها سنة الدعاء (ويدعو بعد الثالثة) بأمور الآخرة والمأثور أولى، وقدم فيه الإسلام مع أنه الإيمان لأنه منبئ عن الانقياد فكأنه دعاء في حال الحياة بالإيمان والانقياد، وأما في حال الوفاة فالانقياد، وهو العمل غير موجود (ويسلم) بلا دعاء (بعد الرابعة) تسليمتين ناوياً الميت مع القوم، ويسر الكل إلا التكبير زيلعي وغيره، لكن في البدائع العمل في زماننا على الجهر بالتسليم. وفي جواهر الفتاوى: يجهر بواحدة.
و فیه ایضا: (215/2، ط: دار الفکر)
(ولايستغفر فيها لصبي ومجنون) ومعتوه لعدم تكليفهم (بل يقول بعد دعاء البالغين: اللهم اجعله لنا فرطا) بفتحتين: أي سابقا إلى الحوض ليهيئ الماء، وهو دعاء له أيضا بتقدمه في الخير، لا سيما، وقد قالوا: حسنات الصبي له لا لأبويه بل لهما ثواب التعليم (واجعله ذخراً) بضم الذال المعجمة، ذخيرة (وشافعاً مشفعاً) مقبول الشفاعة. (ويقوم الإمام) ندباً (بحذاء الصدر مطلقاً) للرجل والمرأة لأنه محل الإيمان والشفاعة لأجله.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی