سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! کیا زید اپنی خالہ کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے؟ جب کہ ایک دو دفعہ زید نے رات کے وقت اپنی خالہ کا پیر دبایا تھا اور پیر دباتے ہوئے اس کے دل میں کچھ شہوانی جذبات بھی پیدا ہوئے تھے، البتہ یہ نہیں یاد کہ ذکر میں بھی کچھ انتشاری کیفیت پیدا ہوئی تھی یا نہیں، اور غالب گمان یہی ہے کہ انتشار نہیں ہوا تھا، ایسی صورت میں حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟
اور براہ کرم یہ بھی واضح فرما دیں کہ ایسی شہوت کے ساتھ چھونا جس کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے، اس کا اور ذکر میں انتشار كا معیار کیا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ حرمت مصاہرت کے ثبوت کیلئے شہوت کے ساتھ چھونا شرط ہے اور شہوت کے لیے شرط یہ ہے کہ بالغ مرد کے آلہ تناسل میں جسمانی طور پر انتشار پیدا ہونا، یا اگر پہلے سے انتشار کی حالت میں تھا، تو چھونے کے وقت اس میں مزید اضافہ ہو جائے، محض شبہ کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔
لہذا آپ کا اپنی خالہ کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا بلاشبہ جائز ہے۔
نیز چونکہ حرمت مصاہرت کا معاملہ نازک ہے، اس لئے ہاتھ لگانے اور پاؤں وغیرہ دبانے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیئے، تاکہ ان وساوس اور توہمات تک نوبت ہی نہ آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مصنف عبد الرزاق: (باب و ربائبکم)
عن ابراھیم قال: اذا قبل الرجل المرأۃ من شھوۃ او مس او نظر الی فرجھالا تحل لابیہ ولا لابنہ".
رد المحتار: (کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، 33/3)
"قوله( وحدها فيهما ) أي حد الشهوة في المس والنظر ح قوله ( أو زيادته ) أي زيادة التحرك إن كان موجودا قبلهما قوله ( به يفتى ) وقيل حدها أن يشتهي بقلبه إن لم يكن مشتهيا أو يزداد إن كان مشتهيا ولا يشترط تحرك الآلة وصححه في المحيط والتحفة وفي غاية البيان وعليه الاعتماد والمذهب الأول بحر قال في الفتح وفرع عليه ما لو انتشر وطلب امرأة فأولج بين فخذي بنتها خطأ لا تحرم أمها ما لم يزدد الانتشار قوله ( وفي امرأة ونحو شيخ الخ ) قال في الفتح ثم هذا الحد في حق الشاب أما الشيخ والعنين فحدهما تحرك قلبه أو زيادته إن كان متحركا لا مجرد ميلان النفس فإنه يوجد فيمن لا شهوة له أصلا كالشيخ الفاني".
و فیه أیضاً: (32/3)
"قوله ( وأصل ماسته ) أي بشهوة قال في الفتح وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك اھ".
الأشباہ و النظائر: (ص: 56)
"القاعدة الثالثة: اليقين لا يزول بالشك:ودليلها ما رواه مسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعا "{ إذا وجد أحدكم في بطنه شيئا فأشكل عليه أخرج منه شيء أم لا فلا يخرجن من المسجد حتى يسمع صوتا ، أو يجد ريحا }"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دالرالافتاء الاخلاص،کراچی