سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ساس محرم ہے یا نا محرم ہے؟
مزید یہ بھی بتائیں کہ داماد کا ساس سے ملنا، ملاقات کے وقت ساس کا داماد کو گلے لگانا اور داماد کو بوسہ دینا وغیرہ کا کیا حکم ہے؟
نیز یہ بھی بتائیں کہ جب بیوی کو طلاق ہو جائے تو پھر ساس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے اور پھر مندرجہ بالا کاموں کے بارے میں کیا حکم ہوگا؟
اور کیا بیوی کو طلاق دینے کے بعد ساس کے ساتھ نکاح کیا جا سکتا ہے؟
جواب: 1:واضح رہے کہ ساس محرم ہے۔
2:ساس کا داماد کو گلے لگانا، اور بوسہ دینا فی نفسہ جائز ہے،خاص طور پر اس وقت، جب ساس جوان نہ ہو اور شہوت کا بھی اندیشہ نہ ہو، لیکن اگر ساس جوان ہو اور شہوت کا اندیشہ ہو، تو اس کو گلے لگنے اور بوسہ دینے سے اجتناب کرنا چاہئے، بصورت دیگر بیوی کے حرام ہوجانے کا اندیشہ رہتا ہے۔
3:بیوی کو طلاق ہوجانے کے بعد بھی ساس محرم ہی رہتی ہے، اور اس کے ساتھ نکاح ہمیشہ کے لئےحرام ہوتا ہے۔
4: بیوی کو طلاق ہوجانے کے بعد بلا شہوت بوڑھی ساس سے گلے ملنے اور بوسہ دینے کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا، البتہ اگر ساس کے ساتھ محرمیت کا کوئی دوسرا رشتہ نہ ہو، تو اس صورت میں مطلقہ بیوی کی ماں سے گلے ملنا اور بوسہ دینا محل تہمت ہونے کی وجہ سے قابل ترک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 23)
حرمت علیکم أمہاتکم وبناتکم وأخواتکم وعماتکم وخٰلٰتکم وبنات الأخ وبنات الأخت وأمہاتکم التی أرضعنکم وأخواتکم من الرضاعۃ وأمہات نسائکم....الخ
رد المحتار: (مطلب یقدم حق العبد، 411/3)
والمحرم من لا یجوز لہ مناکحتہا علی التأبید لقرابۃ أو رضاع أو صہریۃ ۔
الفتاوی الولوالجیۃ: (الفصل الأول فی شرائط وجوب الحج، 253/1)
صفۃ المحرم کل من لا تجوز لہ مناکحتہا علی التأبید برضاع أو قرابۃ أو صہریۃ ، لأن المحرمیۃ تزیل التہمۃ ۔
الاختیار لتعلیل المختار: (200/1)
الھندیة: (کتاب المناسک، 219/1)
رد المحتار: (مطلب یقدم حق العبد علی الحق الشرع، 411/3)
قلت : ویؤید کراہۃ الخلوۃ بہا کالصہریۃ الشابۃ فینبغي استثناء الصہریۃ الشابۃ ہنا ، لأن السفر کالخلوۃ ۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی