سوال:
مجھ سے کسی نے کہا ہے کہ جس نے رمضان کے پورے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے، یہ ایسا ہے گویا اس نے سارا سال روزے رکھے تو کیا یہ مضمون حدیث میں موجود ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شوال کے چھ روزے رکھنے کی احادیثِ مبارکہ میں فضیلت وارد ہوئی ہے، رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی صحیح سند کے ساتھ حدیث کی مستند کتابوں میں موجود ہے:
سنن ابن ماجۃ میں ہے:
عن ثوبان مولیٰ رسول اللہ ﷺ عن رسول اللہ ﷺ أنہ قال: "من صام ستۃ أیام بعد الفطر کان تمام السنۃ من جاء بالحسنۃ فلہ عشر أمثالہا".
(سنن ابن ماجۃ، کتاب الصوم ، باب صیام ستۃ أیام من شوال، وکذا فی الترغیب والترہیب: ۲ /۱۴۲)
ترجمہ:
حضرت ثوبان رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس نے (رمضان کے روزوں کے بعد) شوال کے چھ روزے رکھے، تو یہ پورے سال کے روزے شمار ہوں گے، کیونکہ جو بھی کوئی نیک کام کرتا ہے، تو اسے اس کا دس گنا اجر ملتا ہے‘‘۔
صحیح مسلم میں ہے:
عن أبی أیوب الانصاری ؓ أنہ حدثہ أن رسول اللہ ﷺ قال: "من صام رمضان ثم أتبعہ ستا من شوال کان کصیام الدہر".
( صحیح مسلم، کتاب الصوم ، باب استحباب صوم ستۃ من شوال)
(وکذا فی جامع الترمذی کتاب الصوم: باب ماجاء فی صیام ستۃ ایام من شوال ۱؍۱۵۸- ط : قدیمی)
ترجمہ:
’’حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے تویہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمار ہوں گے‘‘۔
وقال النووی:
"الحسنۃ بعشر أمثالہا فرمضان بعشر أشہر والستۃ بشہرین الخ".
(شرح النووی: ۱ /۳۶۹)
ترجمہ:
کیونکہ نیکی کا اجر دس گنا ہوتا ہے، لہذا رمضان المبارک کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوں گے اور شوال کے چھ روزے دو ماہ کے روزوں کے برابر ہوں گے، اس طرح پورا سال روزہ رکھنے کا اجر ملے گا۔
لہذا رمضان کے ساتھ ساتھ ان روزوں کے رکھنے کی وجہ سے پورے سال کے روزوں کا ثواب ملتا ہے، اس لئے ان کا اہتمام کرنا مستحب ہے۔
البتہ یہ روزے فرض یا واجب نہیں ہیں، لہذا اگر کوئی نہیں رکھتا ہے، تو گناہ گار نہیں ہوگا۔
نیز شوال کا پہلا دن(عید کا دن) چھوڑ کر اس مہینے کے اندر کسی بھی وقت یہ روزے رکھے جاسکتے ہیں، مسلسل یا متفرق، دونوں صورتوں میں جس طرح بھی آسان ہو، رکھے جاسکتے ہیں۔
لیکن اگر کوئی روزہ نہ رکھے، تو اسے ملامت کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے، کیوں کہ یہ مستحب روزہ ہے، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (435/2)
"(وندب تفريق صوم الست من شوال) ولا يكره التتابع على المختار خلافاً للثاني حاوي. والإتباع المكروه أن يصوم الفطر وخمسة بعده فلو أفطر الفطر لم يكره بل يستحب ويسن ابن كمال" .
"(قوله: على المختار) قال صاحب الهداية في كتابه التجنيس: إن صوم الستة بعد الفطر متتابعةً منهم من كرهه، والمختار أنه لا بأس به؛ لأن الكراهة إنما كانت؛ لأنه لايؤمن من أن يعد ذلك من رمضان فيكون تشبهاً بالنصارى والآن زال ذلك المعنى اه ومثله في كتاب النوازل لأبي الليث، والواقعات للحسام الشهيد، والمحيط البرهاني، والذخيرة. وفي الغاية عن الحسن بن زياد: أنه كان لايرى بصومها بأس،اً ويقول: كفى بيوم الفطر مفرقاً بينهن وبين رمضان اه وفيها أيضاً عامة المتأخرين لم يروا به بأساً.
واختلفوا هل الأفضل التفريق أو التتابع اه. وفي الحقائق: صومها متصلاً بيوم الفطر يكره عند مالك، وعندنا لايكره وإن اختلف مشايخنا في الأفضل.
وعن أبي يوسف أنه كرهه متتابعاً والمختار لا بأس به اه وفي الوافي والكافي والمصفى يكره عند مالك، وعندنا لايكره، وتمام ذلك في رسالة تحرير الأقوال في صوم الست من شوال للعلامة قاسم، وقد رد فيها على ما في منظومة التباني وشرحها من عزوه الكراهة مطلقاً إلى أبي حنيفة وأنه الأصح بأنه على غير رواية الأصول وأنه صحح ما لم يسبقه أحد إلى تصحيحه وأنه صحح الضعيف وعمد إلى تعطيل ما فيه الثواب الجزيل بدعوى كاذبة بلا دليل، ثم ساق كثيراً من نصوص كتب المذهب، فراجعها، فافهم. (قوله: والإتباع المكروه إلخ) العبارة لصاحب البدائع، وهذا تأويل لما روي عن أبي يوسف على خلاف ما فهمه صاحب الحقائق كما في رسالة العلامة قاسم، لكن ما مر عن الحسن بن زياد يشير إلى أن المكروه عند أبي يوسف تتابعها وإن فصل بيوم الفطر فهو مؤيد لما فهمه في الحقائق، تأمل".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی