سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! کل امام صاحب نے تراویح کی نماز میں دو رکعات کے بجائے تین رکعات پڑھا دی اور سجدہ سہو بھی نہیں کیا، یوں رکعات کی مجموعی تعداد اکیس ہوگئیں، تو کیا نماز ہو گئی یا پھر تمام مقتدی وہ رکعات دوبارہ پڑھیں گے؟
نیز یہ بھی بتائیں کہ اگر دوبارہ پڑھیں گے تو اس بات کا کیا مطلب ہو گا کہ تراویح کی قضاء نہیں ہوتی ہے؟
جواب: اگر تراویح کی نماز میں دو کی بجائے تین رکعت پڑھ لی گئیں اور آخر میں سجدہ سہو بھی نہیں کیا، ایسی صورت میں اگر دوسری رکعت پر قعدہ نہیں کیا تو وہ تین رکعت تراویح میں شمار نہیں ہوں گی، لہذا ان دو رکعتوں کا وقت کے اندر اعادہ ضروری ہوگا،البتہ ان تین رکعتوں میں کی گئی تلاوت کا اعادہ تراویح میں لازم ہوگا۔
اور اگر دو رکعت کے بعد قعدہ کر لیا تھا تو دو رکعت میں کی گئی تلاوت کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، صرف تیسری رکعت کی تلاوت کا اعادہ لازم ہوگا، نیز وقت کے اندر ان دو رکعتوں کا اعادہ بھی ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (484/3)
"ولو صلى التطوع ثلاث ركعات ولم يقعد على رأس الركعتين، الأصح أنه تفسد صلاته".
رد المحتار: (32/2)
"(قوله: أو ترك قعود أول) ؛ لأن كون كل شفع صلاة على حدة يقتضي افتراض القعدة عقيبه؛ فيفسد بتركها، كما هو قول محمد، وهو القياس، لكن عندهما لما قام إلى الثالثة قبل القعدة فقد جعل الكل صلاةً واحدةً شبيهةً بالفرض، وصارت القعدة الأخيرة هي الفرض، وهو الاستحسان، وعليه فلو تطوع بثلاث بقعدة واحدة كان ينبغي الجواز اعتبارًا بصلاة المغرب، لكن الأصح عدمه؛ لأنه قد فسد ما اتصلت به القعدة وهو الركعة الأخيرة؛ لأن التنفل بالركعة الواحدة غير مشروع فيفسد ما قبلها".
الجوهرة النيرة: (98/1)
"وإذا فسد الشفع وقد قرأ فيه لايعتد بما قرأه فيه، ويعيد القراءة؛ ليحصل الختم في الصلاة الجائزة".
الهندية: (117/1)
"وإذا تذكروا أنه فسد عليهم شفع من الليلة الماضية فأرادوا القضاء بنية التراويح يكره".
کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144109200944
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی