سوال:
مفتی صاحب ! نکاح اور ولیمہ کے درمیان کتنا وقفہ ضروری ہے؟
کیا ولیمہ اسی رات کیا جا سکتا ہے جس دن نکاح ہو؟
اور کیا یہ دورانیہ کئی ہفتوں یا مہینوں یا سالوں کا بھی ہو سکتا ہے؟
اور کیا ولیمہ کرنے کیلئے نکاح کے علاوہ کسی اور شرط کا پورا ہونا بھی ضروری ہے جیسا میاں بیوی کی ملاقات حق مہر وغیرہ؟
جواب: (1/2) واضح رہے کہ ولیمہ کا کھانا اس کھانے کو کہا جاتا ہے، جو میاں بیوی کے اکٹھا ہونے، یعنی شبِ زفاف کے بعد کھلایا جاتا ہے، لہذا جس دن شادی ہو، اگر اسی دن رخصتی اور خلوت بھی ہوجائے، تو خلوت کے بعد اسی دن ولیمہ کرنے سے عین سنت ادا ہو جائے گی ۔
اگر جس دن شادی ہو، اس دن خلوت نہ ہو اور اسی دن ولیمہ کر لیا جائے، تو ایسی صورت میں نفسِ ولیمہ کی سنت تو ادا ہو جائے گی، لیکن ولیمہ کے وقت کی سنت ادا نہیں ہو گی۔
(3/4) ولیمہ کرنا سنتِ مؤکدہ ہے، اس کا مسنون وقت زفاف کے بعد ہے، جس قدر جلد کیا جائے، اتنا ہی سنت کے قریب ہوگا، حدیث شریف میں شبِ زفاف کے تیسرے دن تک ولیمہ کا ثبوت ملتا ہے، اور سب سے بہتر یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو پہلے دن ولیمہ کا انتظام کیا جائے، اگر پہلے دن ممکن نہ ہو تو دوسرے دن، ورنہ پھر تیسرے دن انتظام کر لیا جائے، تیسرے دن کے بعد ولیمہ کرنا فقط ضیافت شمار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (باب قولہ لا تدخلوا بیوت النبی، رقم الحدیث: 4794، 263/3، ط: دار الکتب العلمیة)
وعن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً ولحماً.....
و فیه ایضاً: (باب الوليمة ولو بشاة، رقم الحدیث: 5167، ط: دار الکتب العلمیة)
حدثنا علي حدثنا سفيان قال حدثني حميد أنه سمع أنسا رضي الله عنه قال سأل النبي صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن بن عوف وتزوج امرأة من الأنصار كم أصدقتها قال وزن نواة من ذهب وعن حميد سمعت أنسا قال لما قدموا المدينة نزل المهاجرون على الأنصار فنزل عبد الرحمن بن عوف على سعد بن الربيع فقال أقاسمك مالي وأنزل لك عن إحدى امرأتي قال بارك الله لك في أهلك ومالك فخرج إلى السوق فباع واشترى فأصاب شيئا من أقط وسمن فتزوج فقال النبي صلى الله عليه وسلم أولم ولو بشاة۔
اعلاء السنن: (باب استحباب الولیمۃ، 11/12، ط: ادارۃ القرآن)
والمنقول من فعل النبي صلی الله علیه وسلم أنها بعد الدخول، کأنه یشیر إلی قصة زینب بنت جحش، وقد ترجم علیه البیهقي بعد الدخول، وحدیث أنس في هذا الباب صریح في أنها الولیمة بعد الدخول".
مرقاۃ المفاتیح: (باب الولیمة، 450/3)
قیل: إنہا تکون بعد الدخول، وقیل: عند العقد، وقیل: عندہما۔ والمختار أنہ علی قدر حال الزوج۔
الفتاوى الهندية (5/ 343، دار الفکر)
"ووليمة العرس سنة، وفيها مثوبة عظيمة، وهي إذا بنى الرجل بامرأته ينبغي أن يدعو الجيران والأقرباء والأصدقاء، ويذبح لهم، ويصنع لهم طعامًا، وإذا اتخذ ينبغي لهم أن يجيبوا، فإن لم يفعلوا أثموا، قال عليه السلام: «من لم يجب الدعوة، فقد عصى الله ورسوله، فإن كان صائمًا أجاب ودعا، وإن لم يكن صائمًا أكل ودعا، وإن لم يأكل أثم وجفا»، كذا في خزانة المفتين". ولا بأس بأن يدعو يومئذ من الغد وبعد الغد، ثم ينقطع العرس والوليمة، كذا في الظهيرية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی