سوال:
مفتی صاحب ! سات ماہ قبل میری بھتیجی سے میرے بیٹے کی شادی ہوئی، لڑکی کا رویہ شادی کے فوراً بعد ہتک آمیز رہا اور ایسا محسوس ہوا کہ شادی زبردستی ہوئی ہے، ہم نے شادی بچانے کی بےحد کوشش کی مگر وہ اپنے والدین کے گھر چلی گئی، چھ ماہ تک بلانے کا سلسلہ جاری رہا، بہرحال پھر میں، میرا بڑا بھائی اور میرا بیٹا ہم لڑکی کو کراچی لینے چلے گئے، مگر ناکام لوٹے، میں نے لڑکی سے پوچھا کہ کیا چاہتی ہو، اس نے کہا کہ مجھے غفیر پسند نہیں ہے اور وہ بھی مجھے پسند نہیں کرتا، میں نے کہا کہ اگر پسند نا کرتا تو لینے کیوں آتا، بہرحال اس نے کہا کہ میری اپنی زندگی ہے، میں مزید تعلیم اور جاب کرنا چاہتی ہوں، اپنی اور غفیر کی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتی، گھر والوں نے دباؤ دیا تو گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی، میں نے کہا کہ باہمی رضامندی سے معاملہ ختم کردیتے ہیں جس پر بڑے بھائی نے انہیں کہا کہ آپ ان کا زیور واپس کردیں یہ آپ کا سامان واپس کردینگے،
لڑکی کے والد نے دو سونے کے کنگن اور سونے کا سیٹ واپس کردیا، اور مزید سونا جو منہ دکھائی میں آیا تھا وہ رکھ لیا،
مذکورہ حالات کے پیش نظر چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں، کیا وہ سونا کنگن اور سیٹ جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، ہمیں لوٹانا ہوگا؟
جو جہیز کا سامان تھا واپسی میں وہی دینا ہوگا یا نئے سامان کی قیمت دینی ہوگی؟
لڑکے کو لڑکی والوں کی طرف سے جو سلامی اور کپڑے وغیرہ ملے تھے، وہ واپس کرنے ہوں گے؟
لڑکی والوں نے مجھے اور دیگر رشتہ داروں کو سلامی میں جو کپڑے وغیرہ دییے تھے، وہ واپس کرنے ہوں گے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر لڑکے والوں نے مذکورہ چیزیں (سونے کے کنگن اور سیٹ) لڑکی کو ملکیت کے طور پر دی ہیں تو اب یہ چیزیں لڑکی کی ملکیت ہیں، اور ان چیزوں کو واپس لینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر مذکورہ چیزیں دیتے وقت کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی تو اس صورت میں لڑکے کی برادری کے عرف کا اعتبار کیا جائے گا، اگر لڑکے کے عرف میں تحائف ملکیت کے طور پر دیئے جاتے ہوں تو واپس لینا جائز نہیں ہے، اور اگران کے عرف میں یہ تحائف صرف استعمال کرنے کے لئے دیے جاتے ہوں تو ان کا واپس لینا جائز ہے، تاہم اگر لڑکے کے خاندان میں اس حوالے سے کوئی رواج نہ ہو تو ظاھر کا اعتبار کرتے ہوئے مذکورہ چیزوں کو لڑکی کی ملکیت قرار دیا جائے گا اور لڑکے والوں کو مطالبہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
نیز یہی حکم لڑکی والوں کی طرف سے دی گئی سلامی کا ہے، اگر لڑکی والوں نے مذکورہ چیزیں لڑکے کو ملکیت کے طور پر دی ہیں تو اب یہ لڑکے کی ملکیت ہیں اور ان چیزوں کو واپس لینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر مذکورہ تحائف دیتے وقت کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی تو لڑکی کی برادری کے عرف کا اعتبار کیا جائے گا، اگر ان کے عرف میں تحائف ملکیت کے طور پر دیئے جاتے ہوں تو واپس لینا جائز نہیں ہے، اور اگر لڑکی کے عرف میں یہ تحائف صرف استعمال کرنے کے لئے دئے جاتے ہوں، تو ان کا واپس لینا جائز ہے، تاہم اگر لڑکی کے خاندان میں اس حوالے سے کوئی رواج نہ ہو تو ظاھر کا اعتبار کرتے ہوئے مذکورہ چیزوں کو لڑکے کی ملکیت قرار دیا جائے گا، اور لڑکی والوں کو مطالبہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، البتہ جہیز عورت کی ہی ملکیت ہوتا ہے، اسے واپس کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2589)
عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:ليس لنا مثل السوء، الذي يعود في هبته كالكلب يرجع في قيئه۔
سنن الترمذی: (باب ما جاء لا وصیۃ لوارث، رقم الحدیث: 2120)
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ....قَالَ:الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ، وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ، وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ، وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ
رد المحتار: (153/3)
ومن ذلك ما يبعثه إليه قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابا ونحوها صبيحة العرس أيضا۔
الھندیۃ: (327/1، ط: رشیدیة)
وإذا بعث الزوج إلی أہل زوجتہ أشیاء عند زفافہا منہا دیباج، فلما زفت إلیہ أراد أن یسترد من المرأۃ الدیباج لیس لہ ذلک، إذا بعث إلیہا علی جہۃ التملیک - إلی قولہ - وقال في الواقعات: إن کان العرف ظاہراً بمثلہ في الجہاز کما في دیارنا، فالقول قول الزوج، وإن کان مشترکا، فالقول قول الأب
کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144106201130
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی