سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص نے اپنی بیوی کے سامنے قسم کھائی کہ میں آئندہ تمہارے ساتھ جماع نہیں کروں گا، اب وہ شخص ایک ہفتہ سے بہت پریشان ہے، رہنمائی فرمائیں کہ شریعت ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں بیوی سے جماع نہ کرنے کا کہنا شرعاً '' اِیلاء'' کہلاتا ہے، ''ایلاء'' کا حکم یہ ہے کہ اگر شخصِ مذکور نے چار مہینے تک اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم نہ کیا، تو چار مہینے پورے ہوتے ہی اس کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی، اور اگر چار مہینے کے اندر اپنی بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کرلیا تو پھر طلاق واقع نہیں ہوگی، البتہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا، قسم کا کفارہ درج ذیل ہے:
دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانا، یا دس مسکینوں کو صدقہ فطر کی مقدار رقم دینا، یا ایک ہی غریب کو دس روز تک روزانہ ایک صدقہ فطر کی مقدار دینا، یا دس غریبوں کو پہننے کا جوڑا (لباس) دینا۔ اگر مذکورہ صورتوں میں سے کسی کی استطاعت نہیں ہو، تو پھر تین دن روزے رکھنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدة، الایة: 89)
لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَo
الدر المختار: (422/3، ط: سعید)
'' (هو) لغةً: اليمين. وشرعاً: (الحلف على ترك قربانها) مدته ولو ذمياً، (والمولي هو الذي لا يمكنه قربان امرأته إلا بشيء) مشق (يلزمه) إلا لمانع كفر.۔۔۔۔ (وحكمه: وقوع طلقة بائنة إن برّ) ولم يطأ (و) لزم (الكفارة، أو الجزاء) المعلق (إن حنث) بالقربان. (و) المدة (أقلها للحرة أربعة أشهر، وللأمة شهران) ولا حد لأكثرها ۔۔۔ وألفاظه صريح وكناية، (ف) من الصريح (لو قال: والله) وكل ما ينعقد به اليمين (لا أقربك) لغير حائض، ذكره سعدي ؛ لعدم إضافة المنع حينئذ إلى اليمين، (أو) والله (لا أقربك) لا أجامعك لا أطؤك لا أغتسل منك من جنابة (أربعة أشهر)''۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی