عنوان: زندگی میں جائیداد کی تقسیم کا طریقہ(4536-No)

سوال: مفتی صاحب ! اگر کسی شخص کے چار شادی شدہ بیٹے ہوں اور ان میں سے تین والدین کے خدمت گار اور فرمانبردار ہوں اور ایک نافرمان ہو، والدین سے الگ ہو کر سسرال میں بیوی کے ساتھ رہتا ہو، جب کہ والدین نے نہ صرف اپنے گھر میں رہنے کیلیے جگہ دی ہے، بلکہ جائیداد میں حصہ بھی دیا ہے، جس کا کرایہ چاروں بھائی لیتے ہیں، ماں باپ نے اس خوف سے کہ ان کے مرنے کے بعد اولاد جائیداد میں سے ان کے چھوڑے ہوئے حصہ میں جھگڑا کرے گی، جائیداد میں اپنے لیے کوئی حصہ نہیں رکھا، چنانچہ پینشن کی رقم سے دونوں کا گزارہ ہوتا ہے، نافرمان بیٹے کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر اب والدہ کا اپنے شوہر سے کہنا ہے کہ انہیں جائیداد میں سے ان کا حصہ دے دیا جائے، تاکہ جو بچے ان کی عزت اور خدمت کرتے ہیں، وہ اپنا حصہ انہیں ھبہ کر دیں۔
اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ کیا اب والد اپنی زندگی میں دوبارہ اپنی جائیداد میں سے اپنے اور اپنی بیوی کے لیے چاروں بیٹوں سے حصہ لے سکتے ہیں؟
یاد رہے کہ تمام جائیداد بدستور والد صاحب کے نام پر ہی ہے اور انہوں نے جائیداد بیٹوں کو منتقل نہیں کی ہے۔
نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا والد یا والدہ اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کو جائیداد میں سے اپنا حصہ گفٹ(ھبہ) کرسکتے ہیں؟

جواب: اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو جائیداد میں سے کچھ دینا یا تقسیم کرناچاہے تو یہ ہبہ کہلاتا ہے، اور ''ہبہ'' کے لیے ضروری شرط یہ ہے کہ صرف زبانی طور پر کہنا نہ پایا گیا ہو، بلکہ عملی طور پر موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا گیا ہے) کو مکمل قبضہ دیدیا گیا ہو، اگر جائیداد صرف زبانی طور پر ہبہ کی ہو، اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار نہ دیا ہو، تو وہ جائیداد بدستور دینے والے کی ملکیت میں رہے گی۔
صورت مسؤلہ میں چونکہ جائیداد پر قبضہ بدستور جائیداد تقسیم کرنے والے کا رہا ہے، اس لئے ہبہ تام نہیں ہوا، اس صورت میں جائیداد آپ کے والد کی ملکیت میں ہی ہے، اور انہیں اس کی از سر نو تقسیم کرنے کا حق حاصل ہے، البتہ زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے، نہ کسی کو محروم کرے، اور نہ ہی بلا وجہ کمی بیشی کرے، البتہ اگر وہ اولاد میں سے کسی کو معقول وجہ (مثلا اولاد میں سے کسی کی مالی حالت کمزور ہونے، زیادہ خدمت گزار ہونے، علم دین میں مشغول ہونے، یا کسی اور وجہ فضیلت کی وجہ) سے زیادہ دیتا ہے، اور اس سے دوسرے بچوں کو محروم کرنا یا نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو، تو شرعاً وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مصنف عبد الرزاق: (باب الہبات، 107/9)
عن إبراہیم قال: الہبۃ لا تجوز حتی تقبض، والصدقۃ تجوز قبل أن تقبض۔

مشکوٰۃ المصابیح: (باب العطایا، 261/1، ط: قدیمی)
'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔

الدر المختار: (کتاب الھبة، 569/4)
وتتم الہبۃ بالقبض الکامل۔

رد المحتار: (کتاب الوقف، 444/4، ط: سعید)
" أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة: أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى. وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا: يكون آثماً في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلاتنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لايعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اه".

الفتاویٰ التاتارخانیۃ: (463/14، ط: رشیدیة)
و علی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطی من أولاده من کان متأدباً".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2837 Jun 16, 2020
zindagi mai jaidaad ki taqseem ka tariqa , How to distribute property in life / method of distribution of property in life

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.