سوال:
مفتی صاحب ! اگر کسی شخص کو دعائے قنوت، التحیات یا سورہ فاتحہ وغیرہ بالکل یاد نہ ہوں آدھی آدھی یاد ہوں تو وہ اگر نماز پڑھے تو کیا اس کی نماز ادا ہو جائے گی؟
جواب: (1) واضح رہے کہ اگر کسی شخص کو سورہ فاتحہ آدھی یاد ہو تو بھی اس کے پڑھنے سے نماز کا فریضہ ذمہ سے ساقط ہو جاتا ہے، کیونکہ نماز کی فرض قراءت ایک آیت پڑھنے سے بھی ادا ہوجاتی ہے، اگرچہ وہ آیت سورہ فاتحہ کی ہی کیوں نہ ہو۔
اس تفصیل کے ساتھ ایک آیت کے بقدر قراءت کے فرض ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو ایک آیت کے بقدر بھی قراءت نہ کرے تو اس کی نماز فرض قراءت چھوٹ جانے کی وجہ سے بالکل نہیں ہوگی۔
نیز فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت ملانا واجب ہے، اس کی کم از کم مقدار ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات ہیں، جن کے حروف کی تعداد کم از کم تیس ہونی چاہیے، اور نماز میں قراءت واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو اس قدر قراءت نہ کرے تو اس کی نماز واجب قراءت چھوٹ جانے کی وجہ سے واجب الاعادہ ہے، اگرچہ فرض ایسی صورت میں بھی اس کے ذمے سے ساقط ہوجائے گا، جبکہ اس نے فرض قراءت کے بقدر قراءت کرلی ہو۔
تاہم ایسے شخص پر جلد از جلد قرآن مجید سیکھنا اور یاد کرنا فرض ہے، قراءتِ فرض کی مقدار یاد کر لینا فرض اور واجب کی مقدار یاد کر لینا واجب ہے اور نہ سیکھنے یا اس میں غفلت کرنے سے سخت گنہگار ہوگا۔
(2) جس شخص کو دعائے قنوت یاد نہیں ہے، وہ دعائے قنوت یاد کرنے کی کوشش جاری رکھے اور یاد ہونے تک"ربنا آتنا فی الدنیا حسنة وفى الآخرة حسنة وقنا عذاب النار " یا کوئی اور دعائے مأثورہ پڑھ لے اور اگر یہ بهی یاد نہ ہو تو "اللّٰھم اغفرلی" تین مرتبہ پڑھ لے، یہ بھی یاد نہ ہو تو تین دفعہ " یا رب " پڑھ لے تو واجب ادا ہوجائے گا، لیکن دعائے قنوت کے جو مسنون الفاظ منقول ہیں، ان کی فضیلت حاصل نہیں ہوسکے گی، اس لئے دعائے قنوت یاد کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (537/1)
"(وفرض القراءة آية على المذهب) هي لغة: العلامة. وعرفا: طائفة من القرآن مترجمة، أقلها ستة أحرف ولو تقديرا، ك (لم يلد) ، إلا إذا كان كلمة فالأصح عدم الصحة وإن كررها مرارا إلا إذا حكم حاكم فيجوز ذكره القهستاني. ولو قرأ آية طويلة في الركعتين فالأصح الصحة اتفاقا لأنه يزيد على ثلاث آيات قصار قاله الحلبي".
الدر المختار مع رد المحتار: (458/1)
"(وضم) أقصر (سورة) كالكوثر أو ما قام مقامها، هو ثلاث آيات قصار، نحو {ثم نظر} [المدثر: 21] {ثم عبس وبسر} [المدثر: 22] {ثم أدبر واستكبر} [المدثر: 23] وكذا لو كانت الآية أو الآيتان تعدل ثلاثا قصارا ذكره الحلبي".
"(قوله تعدل ثلاثا قصارا) أي مثل - {ثم نظر} [المدثر: 21]- إلخ وهي ثلاثون حرفا، فلو قرأ آية طويلة قدر ثلاثين حرفا يكون قد أتى بقدر ثلاث آيات، لكن سيأتي في فصل يجهر الإمام أن فرض القراءة آية وأن الآية عرفا طائفة من القرآن مترجمة أقلها ستة أحرف ولو تقديرا كلم يلد إلا إذا كانت كلمة فالأصح عدم الصحة اه ومقتضاه أنه لو قرأ آية طويلة قدر ثمانية عشر حرفا يكون قد أتى بقدر ثلاث آيات.
وقد يقال: إن المشروع ثلاث آيات متوالية على النظم القرآني مثل {ثم نظر} [المدثر: 21] إلخ ولا يوجد ثلاث متوالية أقصر منها، فالواجب إما هي أو ما يعدلها من غيرها لا ما يعدل ثلاثة أمثال أقصر آية وجدت في القرآن، ولذا قال تعدل ثلاثا قصارا ولم يقل تعدل ثلاثة أمثال أقصر آية. على أن في بعض العبارات تعدل أقصر سورة فليتأمل وسنذكر في فصل الجهر زيادة في هذا البحث.
(قوله ذكره الحلبي) أي في شرحه الكبير عن المنية. وعبارته: وإن قرأ ثلاث آيات قصارا أو كانت الآية أو الآيتان تعدل ثلاث آيات قصار خرج عن حد الكراهة المذكورة يعني كراهة التحريم. قال الشارح في شرحه عن الملتقى: ولم أره لغيره وهو مهم فيه يسر عظيم لدفع كراهة التحريم. اه".
الھندیۃ: (الباب الثامن في صلاة الوتر، 111/1، ط: رشیدیة)
’’وليس في القنوت دعاء مؤقت، كذا في التبيين. و الأولي أن يقرأ : اللّهم إنا نستعينك و يقرأ بعده اللّهم اهدنا فيمن هديت. و من لم يحسن القنوت يقول: "ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة و قنا غذاب النار"، كذا في المحيط. أو يقول: اللّهم اغفرلنا، و يكرر ذلك ثلاثاً، وهو اختيار أبي الليث، كذا في السراجية‘‘.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی