سوال:
مفتی صاحب ! ہمارے گھر میں چھ افراد ہیں، اس سال ہم گھر کے دو افراد کی جگہ دو فوت شدہ بزرگوں کی طرف سے قربانی کرنا چاہ رہے ہیں، تو کیا ان کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے یا پہلے گھر کے تمام افراد کی طرف سے قربانی کا اہتمام کیا جائے اور پھر ان دو بزرگوں کی طرف سے قربانی کی جائے؟
جواب: واضح رہے کہ گھر کے جن افراد پر قربانی واجب ہے، ان کو چھوڑ کر میت کی طرف سے نفلی قربانی کرنا جائز نہیں ہے، واجب قربانی نہ کرنے والا گناہ گار ہوگا، نیز واجب کا درجہ نفل پر مقدم ہوتا ہے، لہذا گھر کے جن افراد پر قربانی واجب ہے، پہلے اپنی واجب قربانی کریں، اس کے بعد اگر کوئی اپنی طرف سے میت کے ایصال ثواب کیلئے قربانی کرنا چاہے، تو کرسکتا ہے، بلکہ ایسا کرنا باعث ثواب و فضیلت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المحیط البرھانی: (86/6، ط: دار الکتب العلمیة)
وشرط وجوبها اليسار عند أصحابنا رحمهم الله، والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم، أو عشرون ديناراً، أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومتاعه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من متاعه أو رقيقه أو ... أو متاع..... أو لغيرها فإنها.... في داره. وفي «الأجناس» إن جاء يوم الأضحى وله مائتا درهم أو أكثر ولا مال غيره فهلك ذلك لم تجب عليه الأضحية، وكذلك لو نقص عن المائتين، ولو جاء يوم الأضحى ولا مال له ثم استفاد مائتي درهم فعليه الأضحية۔
الھندیة: (292/5، ط: دار الفکر)
(وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی