سوال:
اگر کوئی شخص عیدالفطر یا عیدالاضحی کی نماز میں زائد تکبیریں فوت ہوجانے کے بعد جماعت میں شریک ہو، یا ایک رکعت نکلنے کے بعد جماعت میں شریک ہو، تو ایسے شخص کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب: اگر کوئی شخص عیدالفطر یا عیدالاضحی کی نماز میں زائد تکبیریں ہوجانے کے بعد جماعت میں شریک ہو، تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ تکبیرِ تحریمہ کے بعد زائد تکبیریں کہہ لے، چاہے امام قراءت شروع کرچکا ہو یا نہیں، اور اگر امام رکوع میں ہے، اور مقتدی کو یہ خیال ہے کہ وہ تکبیرِ تحریمہ کے بعد زائد تکبیریں کہہ کر رکوع میں شامل ہوجائے گا، تو تکبیرِ تحریمہ کے بعد قیام ہی میں زائد تکبیریں کہہ کر رکوع میں شامل ہوجائے، اور اگر یہ گمان ہو کہ امام رکوع سے سر اٹھالے گا، تو تکبیرِ تحریمہ کے بعد رکوع میں شامل ہوجائے، اور ہاتھ اٹھائے بغیر رکوع کی تسبیحات کی جگہ زائد تکبیریں کہہ لے، اور اگر ایک رکعت فوت ہوجانے کے بعد جماعت میں شریک ہوا ہو، تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر پہلے قراءت کرے گا، پھر زائد تکبیریں کہنے کے بعد تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (173/2- 175، ط: دار الفکر)
(ولو أدرك) المؤتم (الإمام في القيام) بعدما كبر (كبر) في الحال برأي نفسه لأنه مسبوق، ولو سبق بركعة يقرأ ثم يكبر لئلا يتوالى التكبير (فلو لم يكبر حتى ركع الإمام قبل أن يكبر) المؤتم (لا يكبر) في القيام (و) لكن (يركع ويكبر في الركوع) على الصحيح لأن للركوع حكم القيام فالإتيان بالواجب أولى من المسنون (كما لو ركع الإمام قبل أن يكبر فإن الإمام يكبر في الركوع ولا يعود إلى القيام ليكبر) في ظاهر الرواية فلو عاد ينبغي الفساد (ويرفع يديه في الزوائد) وإن لم ير إمامه ذلك (إلا إذا كبر راكعا) كما مر فلا يرفع يديه على المختار لأن أخذ الركبتين سنة في محله (وليس بين تكبيراته ذكر مسنون) ولذا يرسل يديه (ويسكت بين كل تكبيرتين مقدار ثلاث تسبيحات) هذا يختلف بكثرة الزحام وقلته۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی