سوال:
مفتی صاحب ! میں دس سال سے بطور ڈرائیور گاڑی چلا رہا ہوں اور مالکان کے عجیب رویوں کی وجہ سے تنگ آکر اب اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے ایک گاڑی خریدنا چاہتا ہوں، مگر میرے پاس صرف ایک لاکھ روپے ہے، میں نے بینک سے معلومات لی، تو پتا چلا کہ انہیں دو یا تین لاکھ ایڈوانس دینے ہونگے، پھر وہ قسط پر گاڑی دینگے۔
اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ اگر میں انہیں ایڈوانس رقم دوں اور سات سال کی مدت پر گاڑی لوں اور مہینہ کی قسط کی ادائیگی میں تاخیر نہ ہو، تو کیا یہ جائز ہے؟
ہمارے پاس کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، جو وقت پر پیسے بھی دیتے ہیں اور گاڑی وغیرہ بھی خریدتے ہیں اور اپنا نفع لیتے ہیں، تو کیا اس طریقہ سے گاڑی خرید سکتا ہوں؟
رہنمائی فرما دیں
جواب: قسطوں پر کسی چیز کی خریدوفروخت درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
1) اس چیز کی مجموعی قیمت باہمی رضامندی سے طے کرلی جائے، چاہے یہ قیمت نقد کے مقابلے میں زیادہ ہی ہو۔
2) قیمت کی وصولی کے لیے ماہانہ قسط کی مقدار اور تاریخ ادائیگی آپس میں مقرر کرلی جائے۔
3) کسی قسط کی گاہک کی طرف سے وصولی میں تاخیر یا کم ادا کرنے کی صورت میں اصل قیمت میں بطور جرمانہ اضافہ کرنے کی شرط نہ لگائی گئی ہو۔
ان شرائط کی پابندی کے ساتھ کسی بھی چیز کی قسطوں پر خریدوفروخت جائز ہے، اگر ان میں سے کوئی شرط بھی چھوٹ جائے، تو یہ خریدوفروخت جائز نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ غیر سودی بینک، جن کے معاملات کی نگرانی علماء کرام کر رہے ہوں، ایسے بینکوں سے اجارہ کی شکل میں کار لینے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (بابُ ما جاء في النہي عن بیعتین في بیعة، رقم الحديث: 1331، 533/3، ط: بیروت)
(تحت حدیث أبي هريرة رضي الله عنه: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة".)
"وقد فَسَّر بعض أہل العلم قالوا بیعتین في بیعة أن یقول: أبیعُک ہذا الثوب بنقد بعشرة وبنسیئة بعشرین، ولا یفارقہ علی أحد البیعتین فإذا فارقہ علی أحدہما، فلا بأس إذا کانت العقدة علی أحد منہما"․
المبسوط للسرخسی: (13/8، ط: دار المعرفة)
"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد،وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا، حتی قاطَعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ جاز".
شرح المجلة: (رقم المادۃ: 225، 78/2)
" البیعُ مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح".
بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة: (12/1، ط: دار العلوم کراتشی)
" أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی