سوال:
مفتی صاحب ! ماضی میں والدہ کی طرف سے چند سال قربانی نہیں ہوئی، اگرچہ ان کے پاس زیور وغیرہ تھا۔ کیا اب اس کی تلافی وا جب ہے اور اس کی کیا صورت ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ جس مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے دنوں میں ضرورت سے زائد ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے بقدر قیمت کی کوئی چیز ہو، تو شرعاً اس پر قربانی واجب ہے، اور جب تک اس کے پاس یہ نصاب باقی رہے گا، ہر سال اس کے ذمے قربانی واجب ہوگی، اگر کسی وجہ سے قربانی نہ کرسکے، تو وہ معاف نہیں ہے، بلکہ اس کی قضا میں ہر قربانی کے بدلے ایک متوسط بکرا یا بکری کی قیمت صدقہ کرنا شرعاً اس پر واجب ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کی والدہ پر مذکورہ بالا نصاب کے مطابق اگر قربانی واجب تھی، لیکن انہوں نے نہیں کی، تو محتاط اندازے کے مطابق جتنے سال قربانی کے بغیر گزرے ہیں، ہر سال کے بدلے ایک متوسط بکرا یا بکری کی قیمت غریبوں، مسکینوں پر صدقہ کردیں، تو گزشتہ قربانیوں کا ذمہ ساقط ہو جائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الأضحیۃ، 463/9، ط: بیروت)
"(ولو ترکت التضحیۃ ومضت أیامہا تصدق بہا حیۃ ناذر)".
قولہ : (ولو ترکت التضحیۃ الخ) شروع في بیان قضاء الأضحیۃ إذا فاتت عن وقتہا فإنہا مضمونۃ بالقضاء في الجملۃ کما في البدائع ۔۔۔۔۔۔۔ قولہ : (تصدق بہا حیۃ) لوقوع الیأس عن التقرب بالإراقۃ ، وإن تصدق بقیمتہا أجزأہ أیضًا ؛ لأن الواجب ہنا التصدق بعینہا ، وہذا مثلہ فیما ہو المقصود ۔ اھ ۔ ذخیرۃ".
الھندیة: (294/5- 296)
المبسوط للسرخسي: (باب الأضحیۃ، 12/18، ط: دار الکتب العلمیة)
"وأما بعد مضي أیام النحر فقد سقط معنی التقرب بإراقۃ الدم ، لأنہا لا تکون قربۃ إلا في مکان مخصوص وہو الحرم ، وفي زمان مخصوص وہو أیام النحر ۔ ولکن یلزمہ التصدق بقیمۃ الأضحیۃ إذا کان ممن تجب علیہ الأضحیۃ ، لأن تقربہ في أیام النحر کان باعتبار المالیۃ فیبقی بعد مضیہا والتقرب بالمال في غیر أیام النحر یکون بالتصدق ، ولأنہ کان یتقرب بسببین : إراقۃ الدم والتصدق باللحم ، وقد عجز عن أحدہما ، وہو قادر علی الآخر فیأتي بما یقدر علیہ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی