سوال:
مفتی صاحب ! گائے کی قربانی کے لیے سات حصے ہوتے ہیں، لیکن ایک شخص جس کے دو حصے تھے، وہ پیچھے ہٹ گئے ہیں، جس کی وجہ سے اب ہم تین لوگ ہیں، جس میں سے تین حصے میرے اور ایک حصہ میرے انکل اور ایک حصہ میرے دوسرے انکل کا ہے، تو کیا ہم تین بندے مل کر جانور لا سکتے ہیں؟
اور اگر لانے کی گنجائش ہے، تو اس کے حصے کیسے تقسیم کریں گے؟
مثال کے طور پر ایک جانور جس کی قیمت پچھتر ہزار (75000) ہے، اگر رقم پانچ حصوں میں تقسیم کریں، تو ایک بندے پر پندرہ ہزار (15000) آئینگے، تو اگر ہم بقیہ دو حصوں میں سے ایک حصہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور دوسرا حصہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام سے کردیں، تو سات حصے پورے ہوجائینگے یا نہیں؟
اور اگر ہو جائینگے، تو کیا یہ دو حصے بھی سب میں تقسیم ہونگے؟
جواب: واضح رہے کہ کسی بھی بڑے جانور میں زیادہ سے زیادہ سات افراد شریک ہوسکتے ہیں، سات افراد سے کم ہوں، تو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ سات افراد میں سے ہر آدمی کا کم از کم ایک حصہ مکمل ہونا چاہیے۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر متعدد افراد مل کر ایک حصہ آپ ﷺ کی طرف سے اور ایک حصہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو قربانی صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سب حصے دار اپنی قربانی کی رقم کسی ایک یا دو حصہ دار افراد کو ہبہ (گفٹ) کردیں، پھر وہ شخص نفلی قربانی حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کیلیے کرلے، اس سے قربانی کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا اور ان شاء اللہ باقی شرکاء (جنہوں نے اپنے حصے کی رقم ہبہ کردی ہے وہ) بھی پورے ثواب کے حق دار ہوں گے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی اس کا ثواب پہنچے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (کتاب الاضحیة، 206/4، ط: رشیدیة)
وأما قدره فلايجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر، فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.
فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحّى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لايذبح من أمته، فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟
(فالجواب): أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولايجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء‘‘.
الھندیة: (304/5، ط: دار الفکر)
يجب أن يعلم أن الشاة لا تجزئ إلا عن واحد، وإن كانت عظيمة، والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولا يمنع النقصان، كذا في الخلاصة....
ولو أرادوا القربة - الأضحية أو غيرها من القرب - أجزأهم سواء كانت القربة واجبة أو تطوعا أو وجب على البعض دون البعض، وسواء اتفقت جهات القربة أو اختلفت بأن أراد بعضهم الأضحية وبعضهم جزاء الصيد وبعضهم هدي الإحصار وبعضهم كفارة عن شيء أصابه في إحرامه وبعضهم هدي التطوع وبعضهم دم المتعة أو القران وهذا قول أصحابنا الثلاثة رحمهم الله تعالى
فتاوی دار العلوم دیوبند: (359/15، ط: مکتبة العلم)
احسن الفتاوی: (498/7، ط: سعید)
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 143909201943
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی