سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص نے اپنے ایک بیٹے کو یہ کہتے ہوئے رقم کا کچھ حصہ دیا کہ اب وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
اور کیا ایسا کرنے سے بیٹے کی میراث کا حصہ وصول ہوگیا یا بعد میں وراثت کی تقسیم میں اس کو بھی حصہ ملے گا؟
جواب: زندگی میں اولاد کو کچھ دینا ہبہ (Gift) کہلاتا ہے، جبکہ میراث مرنے کے بعد جاری ہوتی ہے، شریعت کی طرف سے میراث کے حصے متعین ہوتے ہیں، اور اس میں رد و بدل نہیں کی جا سکتی، لہذا اگر زندگی میں اولاد کو کچھ جائیداد وغیرہ دے دی ہو، تو اس کے دینے سے وہ میراث سے محروم نہیں ہوتا۔
پس صورتِ مسئولہ میں والد نے جس بیٹے کو زندگی میں حصہ دیا ہے، وہ والد کی طرف سے ہدیہ (Gift) شمار ہوگا، والد کے مرنے کے بعد والد کی میراث سے وہ بیٹا محروم نہیں ہوگا، بلکہ دوسرے شرعی ورثاء کی طرح اس بیٹے کو بھی والد کی میراث میں سے حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تکملۃ رد المحتار: (کتاب الدعوی، 505/6، ط: سعید)
الارث جبری لایسقط بالاسقاط.
البحر الرائق: (کتاب الفرائض، 346/9، ط: رشیدیة)
وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث فنقول: هذا فصل اختلف المشايخ فيه، قال مشايخ العراق: الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث، وقال مشايخ بلخ: الإرث يثبت بعد موت المورث".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی