سوال:
شریعت نے قربانی کے جانوروں کے لئے کوئی خاص عمر کی شرط رکھی ہے یا کسی بھی عمر کا جانور قربان کیا جا سکتا ہے؟
جواب: شریعتِ مطہرہ میں جانور کی قربانی درست ہونے کے لیے ایک خاص عمر متعین ہے، یعنی:بکرا، دنبہ، بھیڑ، مینڈھا کی عمر کم از کم ایک سال۔ گائے، بھینس، بیل کی عمر کم از کم دو سال۔ اونٹ، اونٹنی کی عمر پانچ سال پورا ہونا ضروری ہے۔
دنبہ اور بھیڑ وغیرہ اگر چھ مہینے کا ہوجائے، لیکن وہ صحت اور فربہ ہونے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی بھی درست ہوگی۔
اگر یقینی طور پر معلوم ہو کہ ان جانوروں کی اتنی عمریں ہوگئیں ہیں، مثلاً: جانور کو اپنے سامنے پلتا بڑھتا دیکھا ہو اور ان کی عمر بھی معلوم ہو تو ان کی قربانی درست ہے، پکے دانت نکلنا ضروری نہیں، بلکہ مدت پوری ہونا شرط ہے، تاہم آج کل چونکہ فساد کا غلبہ ہے، اس لیے صرف بیوپاری کی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اس لیے احتیاطاً دانت کو عمر معلوم کرنے کے لیے علامت کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، دانتوں کی علامت ایسی ہے کہ اس میں کم عمر کا جانور نہیں آسکتا، ہاں! زیادہ عمر کا آنا ممکن ہے، یعنی تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ مطلوبہ عمر سے پہلے جانور کے دو دانت نہیں نکلتے ہیں، لہذا اگر جانور کی عمر یقینی طور پر معلوم نہ ہو تو جانور کی عمر کی تعیین کرنے کے لیے دانتوں کو ہی معیار بنا لینا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیۃ: (کتاب الاضحیۃ، الباب الخامس فی بیان محل اقامۃ الواجب، 297/5، ط: دار الفکر)
فلا یجوز شيء مما ذکرنا من الإبل والبقر والغنم عن الأضحیۃ إلا الثني من کل جنس، وإلا الجذع من الضأن خاصۃً إذا کان عظیمًا … حتی لو ضحیٰ بأقل من ذلک شیئًا لا یجوز۔
الدر المختار: (322/6)
وہو ابن خمس من الإبل، وحولین من البقر والجاموس، وحول من الشاۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی