سوال:
الٹی (قے) جسم یا کپڑوں پر لگ جائے تو جسم یا کپڑا پاک رہے گا یا ناپاک ہو جائے گا؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ نومولود بچے کی الٹی (قے) جسم یا کپڑوں پر لگ جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: قے چاہے بالغ کی ہو یا شیر خوار بچے کی، اگر منہ بھر کر ہو تو ناپاک ہے اور نجاست غلیظہ کے حکم میں ہے، لہذا اگرایک درہم یا ہتھیلی کے گہراؤ کے برابر یا اس سے کم کپڑوں پر لگ جائے، اور قے دھوئے بغیر نماز پڑھ لی تو نماز ہوجائیگی اگرچہ مکروہ ہوگی، لیکن اگر قے ایک درہم یا ہتھیلی کے گہراؤ سے زیادہ ہے تو دھوئے بغیر نماز نہیں ہوگی، البتہ اگر قے منہ بھر کر نہ ہو یا بچہ دودھ نگلے بغیر ہی واپس نکال دے تو وہ ناپاک نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (309/1)
وَفِي الْفَتْحِ: صَبِيٌّ ارْتَضَعَ ثُمَّ قَاءَ فَأَصَابَ ثِيَابَ الْأُمِّ إنْ كَانَ مِلْءَ الْفَمِ فَنَجِسٌ، فَإِذَا زَادَ عَلَى قَدْرِ الدِّرْهَمِ مَنَعَ.وروى الحسن عن الإمام أنه لا يمنع ما لم يفحش؛ لأنه لم يتغير من كل وجه وهو الصحيح؛ وقدمنا ما يقتضي طهارته.
و فیه ایضا: (138/1)
وَهُوَ نَجَسٌ مُغَلَّظٌ، وَلَوْ مِنْ صَبِيٍّ سَاعَةَ ارْتِضَاعِهِ، هُوَ الصَّحِيحُ لِمُخَالَطَةِ النَّجَاسَةِ، ذَكَرَهُ الْحَلَبِيُّ.مقابله ما في المجتبى عن الحسن أنه لا ينقض لأنه طاهر حيث لم يستحل، وإنما اتصل به قليل القيء فلا يكون حدثا. قال في الفتح: قيل وهو المختار. ونقل في البحر تصحيحه عن المعراج وغيره (قوله: ذكره الحلبي) أي في شرح المنية الكبير، حيث قال: والصحيح ظاهر الرواية أنه نجس لمخالطته النجاسة وتداخلها فيه بخلاف البلغم. اه.
أقول: وحيث صحح القولان فلا يعدل عن ظاهر الرواية، ولذا جزم به الشارح
الهندية: (45/1)
الْمُغَلَّظَةُ وَعُفِيَ مِنْهَا قَدْرُ الدِّرْهَمِ وَاخْتَلَفَتْ الرِّوَايَاتُ فِيهِ وَالصَّحِيحُ أَنْ يُعْتَبَرَ بِالْوَزْنِ فِي النَّجَاسَةِ الْمُتَجَسِّدَةِ وَهُوَ أَنْ يَكُونَ وَزْنُهُ قَدْرَ الدِّرْهَمِ الْكَبِيرِ الْمِثْقَالِ وَبِالْمِسَاحَةِ فِي غَيْرِهَا وَهُوَ قَدْرُ عَرْضِ الْكَفِّ هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ وَالْكَافِي وَأَكْثَرُ الْفَتَاوَى وَالْمِثْقَالُ وَزْنُهُ عِشْرُونَ قِيرَاطًا وَعَنْ شَمْسِ الْأَئِمَّةِ يُعْتَبَرُ فِي كُلِّ زَمَانٍ بِدِرْهَمِهِ وَالصَّحِيحُ الْأَوَّلُ. هَكَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی