سوال:
مفتی صاحب ! زید نے کچھ رقم سے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا، کچھ دنوں بعد بکر اسکے پیچھے پڑ گیا کہ اسکی رقم بھی اس کاروبار میں شامل کرلے، تاہم وہ (بکر) اس کاروبار میں کچھ محنت نہیں کرے گا، زید راضی ہوگیا اور کہا کہ میں تمہیں پچیس (25) فیصد نفع دوں گا، لیکن بکر اس پر راضی نہیں ہے اور پچاس (50) فیصد نفع کا مطالبہ کررہا ہے اس بارے میں شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمادیں۔
جواب: مذکورہ صورت میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ بکر کس معاملہ کی بنیاد پر زید کے کاروبار میں پیسے لگا کر منافع حاصل کرنا چاہتا ہے٬ جب کہ شرعی طور اس طرح کا کاروباری معاملہ کرتے وقت سب سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ فریقین کون سا طریقہ تمویل(Mode of Financing) اختیار کرنا چاہ رہے ہیں، تاکہ اس سے متعلقہ شرعی ہدایات کو پیش نظر رکھا جاسکے٬ اگر اس طرح کسی قسم کی تفصیلات طے کئے بغیر ایک شخص دوسرے کو پیسے دیکر کہے کہ مجھے اتنے فیصد منافع دوگے٬ لیکن اس کی کاروباری اثاثوں اور کاروباری نقصان میں شرکت نہ ہو٬ محض پیسے دیکر نفع لینا مقصود ہو٬ تو یہ قرض کی صورت بنے گی٬ جس پر نفع کا لین دین سودی معاملہ بن جائے گا، جو کہ ناجائز اور حرام ہے٬ اس لئے فریقین کو چاہئے کہ اس طرح معاملے کو ابہام میں نہ رکھیں، بلکہ تفصیلات طے کرتے ہوئے معاملے کو واضح کریں۔
مذکورہ معاملہ میں جب بکر زید کے کاروبار میں پیسے لگا کر نفع حاصل کرنا چاہتا ہے٬ تو اس کی جائز صورت شراکت داری (Partner Ship) کی ہوسکتی ہے کہ زید اور بکر اس کاروبار میں اپنے اپنے سرمایہ کے بقدر شریک ہوں٬ اس صورت میں زید عمل کرنے والا، جبکہ بکر سلیپنگ پارٹنر(sleeping partner) کے طور پر شریک ہوگا٬ اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ شراکت داری کے دیگر شرعی احکام کی رعایت رکھی جائے٬ جس میں فریقین کے سرمایہ کا تناسب (Percentage) معلوم ہونا ضروری ہے٬ اور شراکت داری کا شرعی اصول یہ ہے کہ تمام شرکاء کاروبار کے نفع و نقصان دونوں میں شریک ہونگے، کسی ایک شریک کا نقصان میں شریک نہ ہونے کی شرط لگانا جائز نہیں ہے٬ اور نقصان کی صورت میں ہر شریک اپنے اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا۔
جہاں تک نفع کی تقسیم کا تعلق ہے٬ تو اس سلسلے میں شریعت کی طرف سے کوئی مخصوص مقدار یا تناسب لازم نہیں ہے٬ بلکہ فریقین اپنے سرمایہ٬ ذمہ داریوں اور کاروبار کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے کوئی بھی فیصدی تناسب طے کرسکتے ہیں، البتہ اگر کسی شریک کا کاروبار میں صرف سرمایہ شامل ہو، اور وہ کام نہ کر رہا ہو، تو ایسے شریک (جسے غیر عمیل شریک یا "Sleeping Partner" کہا جاتا ہے) کیلئے نفع کا حصہ، سرمایہ کے تناسب سے کم یا برابر تو مقرر کیا جاسکتا ہے، لیکن نفع کا تناسب اس کے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ مقرر کرنا شرعا درست نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
إعلاء السنن: (566/14، ط: دار الکتب العلمیة)
"عن علي رضي اﷲ عنہ مرفوعا کل قرض جر منفعۃ فہو ربا. وقال الموفق: کل قرض شرط فیہ الزیادۃ فہو حرام بلا خلاف"
الھندیۃ: (کتاب الشرکۃ، الباب الأوّل فی أنواع الشرکۃ)
"وحکم شرکۃ العقد صیرورۃ المعقود علیہ و ما یستفاد بہٖ مشترکًا بینھما"
و فیھا ایضا: (کتاب الشرکۃ الفصل، الثانی فی شرط الربح)
"وان قلّ رأس مال أحدھما و کثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بینھما علی السواء أو علی التفاضل فانّ الربح بینھما علی الشرط"
بدائع الصنائع: (59/5، ط: زکریا)
"ومنہا (شرائط جواز الشرکة) أن یکون الربح معلوم القدر....وأن یکون جزء ًا شائعًا في الجملة لا معینا"
و فیہ ایضاََ: (کتاب الشرکة، 62/6، ط: دار الکتب العلمیة)
"والوضیعۃ علی قدر المالین متساویاً ومتفاضلاً ، لأن الوضیعۃ اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال"
الھدایۃ: (کتاب الشرکة، 242/3، ط: ادارۃ المعارف، دیوبند)
" والربح علی ما شرطا؛ لأن الوضیعۃ علی قدر المالین ولم یفصل"
رد المحتار: (312/4، ط: دار الفکر)
وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی