سوال:
مفتی صاحب ! زید نے بکر سے بیس لاکھ (2000000) کا پلاٹ خریدا اور بیعانہ میں پانچ لاکھ (500000) ادا کرکے اسے قانوناً تحریر کرتے ہوئے بقیہ رقم اور قبضہ دو ماہ بعد طے کرلیا، تاہم دو ماہ بعد زید نے معاہدہ کے مطابق پلاٹ لینے سے انکار کردیا اور بیعانہ چھوڑنے پر بھی تیار ہوگیا، مگر بکر نے کہا کہ ہم کسی اور کو پلاٹ فروخت کرکے آپ کا بیعانہ واپس کرینگے، لیکن اب مارکیٹ میں پلاٹ ایک لاکھ کم قیمت پر فروخت ہورہا ہے۔
اس تناظر میں سوال ہے کہ کیا یہ ایک لاکھ کی رقم کا نقصان زید کے حصہ میں آئے گا یا بکر کے حصہ میں آئے گا؟
جواب: واضح رہے کہ پلاٹ کی بیع ہونے کے بعد خریدار کی طرف سے پیشگی رقم، جو بیعانہ کے نام سے دی جاتی ہے، وہ اس پلاٹ کی طے ہونے والی قیمت ہی کا جزوی حصّہ ہوتی ہے، لہذا اگر کسی وجہ سے سودا کینسل ہو جائے، تو اس رقم کو ضبط کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ وہ رقم خریدار کو پوری واپس کرنا شرعاً ضروری ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر بائع وہ پلاٹ کسی اور کو سابقہ قیمت سے کم میں فروخت کرتا ہے، تو یہ نقصان اسی کو برداشت کرنا ہوگا، سابقہ خریدار کے بیعانہ کی رقم سے کٹوتی کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
إعلاء السنن: (6026/12)
"قال الموفق فی"المغنی" العربون فی البیع ھو ان یشتری السلعۃ ۔۔۔ فیدفع الی البائع درھما او غیرہ علی انہ اخذ السلعۃ احتسب بہ من الثمن والم یاخذھا فذالک للبائع.... وقال ابو الخطاب (من الحنابلۃ ) : انہ لایصح، وھو قول الشافعی و اصحاب الرای".
فقه البیوع: (113/1)
العربون والعربان : بیع فسرہ ابن منظور بقولہ:" ھو ان یشتری السلعۃ ویدفع الی صاحبھا شیئا یلی انہ ان امضی البیع جائز حسب من الثمن، وان یمض البیع، کان لصاحب السلعۃ، ولم یرتجعہ المشتری۔
واختلف الفقہاء فی جواز العربون: فقال الحنفیۃ والمالکیۃ واشافعیۃ وابو الخطاب من الحنابلۃ : انہ غیر جائز".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی