سوال:
مفتی صاحب ! چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
(1) وہ کونسے اعمال ہیں، جنہیں بخشنا درست نہیں؟
(2) کیا مردوں کی طرح زندوں کو بھی کسی عمل کا ثواب بخشا جاسکتا ہے؟
(3) کسی مرحوم کو اس طرح ثواب بخشنا درست ہے کہ ہر ہر نیک عمل کی علیحدہ نیت کرنے کے بجائے صبح یہ نیت کرلی جائے کہ آج جو بھی نیک عمل کرونگا، اس کا ثواب فلاں مرحوم کو مل جائے؟
جواب: 1) ایصال ثواب کے لئے نیت کرنا عام ہے، چاہے تو عمل سے پہلے دن کے شروع میں ہی نیت کرلے یا عمل کرنے کے بعد نیت کرلے، بہر صورت ایصال ثواب کرنا درست ہے۔
2) ایصال ثواب ہر اس نیک عمل کا کیا جاسکتا ہے، جس پر خود عمل کرنے والے کو ثواب ملنے کی امید ہو، لہذا خلافِ شرع امور انجام دے کر اس کا ثواب پہنچانا حماقت ہے۔
3) ایصال ثواب مُردوں کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ مُردوں کے ساتھ ساتھ زندہ لوگوں کو بھی نیک عمل کرکے ثواب پہنچایا جاسکتا ہے، عام طور پر مُردوں کے لیے ایصال ثواب کیا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ زندہ انسان کے اپنے اعمال کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ مرنے کے بعد انسان کے اپنے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، اور وہ ایصال ثواب کا محتاج سمجھا جاتا ہے، اس لیے عام طور پر مُردوں کے لئے ایصال ثواب کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح العقائد: (ص: 172)
وفی دعاء الاحیاء للاموات وصدقتھم ای صدقۃ الاحیاء عنھم ای عن الاموات نفع لھم ای للاموات …ولنا ما ورد فی الاحادیث الصحاح من الدعا للاموات خصوصا فی صلاۃ الجنازۃ وقد توارثہ السلف فلو لم یکن للاموات نفع فیہ لما کان لہ معنی وقال علیہ السلام مامن میت تصلی علیہ امۃ من المسلمین یبلغون مائۃ کلھم یشفعون الا شفعوا فیہ وعن سعد بن عبادۃ انہ قال یا رسول اﷲ ان ام سعد ماتت فای الصدقۃ افضل قال الماء فحفر بیرا وقال ھذا لام سعد۔
رد المحتار: (مطلب فی القراءۃ للمیت و اھداء ثوابھا لہ، 180/2)
(تنبیہ) صرح علماءنا فی باب الحج عن الغیر بان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ او صوما او صدقۃ او غیرھا کذا فی الھدایۃ، بل فی زکاۃ التتارخانیۃ عن المحیط: الافضل لمن یتصدق نفلا ان ینوی لجمیع المؤمنین والمؤمنات لانھا تصل الیھم ولا ینقص من اجرہ شیٔ اھ ھو مذھب اھل السنۃ والجماعۃ....ولھذا اختاروا فی الدعاء: اللھم اوصل مثل ثواب ما قرأتہ الی فلان، واما عندنا فالواصل الیہ نفس الثواب وفی البحر: من صام اوصلی او تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الاموات والاحیاء جاز، ویصل ثوابھا الیھم عند اھل السنۃ والجماعۃ کذا فی البدائع....أن الظاہر أنہ لا فرق بین أن ینوي بہ عند الفعل للغیر أو یفعلہ لنفسہ ثم یجعل ثوابہ لغیرہ لإطلاق کلامہم․ قال: قولہ: ” لغیرہ“ أي من الأحیاء والأموات۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی