سوال:
مفتی صاحب ! ہم پانچ (5) بھائی اور دس (10) بہنوں کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، انتقال کے بعد ترکہ میں چھوڑا گیا والد صاحب کا مکان وراثت میں تقسیم نہیں کیا گیا اور ہم بھائی اکھٹے رہتے رہے اور پیسہ بھی مشترکہ طور پر خرچ کرتے رہے، (چاروں بھائی جو پیسہ کماتے تھے وہ مجھے لاکر دیتے اور میں ان پیسوں کو گھر کی ضروریات میں خرچ کرتا) ایک دوست نے میرے پاس کچھ رقم بطور امانت رکھوائی تھی، تو گھر میں ہونے والے کچھ ریپیرنگ کے کام میں دوست کی رقم خرچ ہوگئی، اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ امانت کی رقم خرچ کرنے سے پہلے نہ میں نے گھر میں کسی کو بتایا اور نہ ہی کسی سے کچھ پوچھا، البتہ گھر کی مرمت میں اس رقم کو خرچ کردینے کے بعد میں نے بھائیوں سے کہا کہ کسی کی امانت کی رقم گھر کی مرمت میں خرچ ہوگئی ہے، لہذا جب میراث تقسیم ہوگی، تو میں وہ رقم آپ لوگوں سے لے لوں گا، اب ہم والد صاحب کے اسی گھر کو (جو میراث میں تقسیم نہیں ہوا تھا اور جس کی مرمت میں دوست کی امانتاً رکھوائی گئی رقم خرچ ہوگئی تھی) بطور میراث تقسیم کرنا چاہ رہے ہیں۔
اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ دوست کی امانت کے طور پر رکھوائی گئی جو رقم اس گھر میں خرچ ہو گئی ہے، وہ امانت کی رقم سب حصہ دار (مکان میں ملنے والے حصہ کے تناسب سے جتنا فیصد ان کا حصہ بن رہا ہے) مجھے دینگے یا وہ پیسے اکیلے میرے ہی ذمہ ہونگے؟
جواب: صورت مسؤلہ میں اگر آپ نے امانت کی رقم سے مکان کی مرمت ضرورت کی وجہ سے کروائی تھی، تو اس صورت میں اس کا خرچہ تمام ورثاء کے حصوں کے بقدر ان پر تقسیم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (قبیل مطلب في الحائط إذا خرب و طلب أحد الشریکین، 513/6، ط: زکریا)
الحمام إذا احتاج إلی مرمۃ وأنفق أحد الشریکین من مالہ، أجاب: لا یکون متبرعاً ویرجع بقیمۃ البناء بقدر حصتہ … وجعل الفتویٰ علیہ۔
شرح المجلۃ لسلیم رستم باز: (المادۃ: 19)
’’ومن فروع ھٰذہ القاعدۃ ما لو احتاج الملک المشترک الی العمارۃ فطلب أحدالشریکین عمارتہٗ وأبی الآخر فانّہٗ یجبر علیہ بل اذا کان الملک المشترک قابلًا للقسمۃ یقسم…وان لم یکن قابلًا للقسمۃ یأذن الحاکم لطالب العمارۃ بالتعمیر ویحبس العین الٰی أن یستوفی من شریکہٖ قدرما أصاب حصّتہٗ من النفقۃ۔
فتاویٰ دار العلوم دیوبند: (35/13، ط: امداد العلوم)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی