سوال:
مفتی صاحب ! میرے دادا جان کا انتقال ہوگیا ہے، کیا ہم انکے نام کی قربانی کرسکتے ہیں؟
جواب: اگر استطاعت ہو تو میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز، بلکہ مستحسن ہے، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر میت کے لیے الگ الگ حصہ رکھنا ضروری ہے، ایک حصہ ایک سے زیادہ مرحومین کے لیے کافی نہیں ہے، البتہ اپنی طرف سے ایک نفلی قربانی کرکے اس کا ثواب ایک سے زائد مرحومین کو بخش سکتے ہیں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری امت کی طرف سے ایک مینڈھا قربان کیا تھا۔
اگر کسی کی گنجائش ہو، تو مُردوں کو ثواب پہنچانے کے لیے قربانی کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ یہ بڑی فضیلت اور ثواب کا کام ہے، اور یہ عمل ان شاءاللہ مُردوں کے دفع عذاب اور رفع درجات کا باعث بنے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوٰۃ المصابیح: (ص: 127، ط: قدیمی)
عن جابر قال ذبح النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الذبح کبشین اقرنین املحین موجوئین فلمّا وجہما قال انی وجّھت وجہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللھم منک ولک عن محمد وامتہ....
وفی روایۃ: اللھم تقبل من محمد وآل محمد ومن امۃ محمد ثم ضحی بہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی