سوال:
مفتی صاحب! ہمارے خاندان میں برسوں سے یہ رواج ہے کہ اگر کسی عورت کو حمل ٹھہر جائے، تو اس کا خاوند اسے بچوں سمیت باپ کے گھر چھوڑ آتا ہے، اور اگر باپ موجود نہ ہو، تو بھائی کے گھر چھوڑ دیتا ہے، اور جب تک بچہ کی پیدائش نہ ہوجائے، بیوی اور بچوں کے سارے اخراجات باپ یا بھائی اٹھاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اس رواج کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟
جواب: شریعتِ مطہرہ نے بیوی اور بچوں کا نان و نفقہ شوہر کے ذمہ واجب قرار دیا ہے۔
تاہم صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ رواج کہ جس میں شوہر حاملہ بیوی کو بچوں سمیت باپ یا بھائی کے گھر چھوڑ آتا ہے، اور بیوی بچوں کے سارے خرچے باپ یا بھائی اٹھاتے ہیں، غلط ہے، لہذا اس رواج کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (572/3، ط: دار الفکر)
(ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو؛ لأنها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة بحر (على زوجها) ؛ لأنها جزاء الاحتباس، وكل محبوس لمنفعة غيره يلزمه نفقته....الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی